بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں منگل کے روز پریس کلب کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
8 جون 2009 کو مستونگ سے لاپتہ ہونے والے بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین اور بلوچ سیاسی رہنماء زاکر مجید کے والدہ کی اپیل پر مظاہرہ کیا گیا۔
اس موقع پر والدہ زاکر مجید نے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ لاپتہ بیٹے سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے۔
زاکر مجید بلوچ کی 12 سالوں سے طویل جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں دیگر لاپتہ افراد کبیر بلوچ، حسان قمبرانی،حزب اللہ قمبرانی، غلام فاروق، ظفر اللہ بنگلزئی کے اہلخانہ اور طلباء تنظیموں سمیت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، اسٹوڈنٹس رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ،خالدہ قاضی اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی-
احتجاج میں شامل خواتین اور بچوں نے لاپتہ افراد تصویریں اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کے لیے نعرہ درج تھے –
اس موقع پر والدہ زاکر مجید بلوچ نے کہا کہ میرے بیٹے سمیت زاہد کرد اور دیگر لاپتہ نوجوانوں کو بازیاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سالوں سے ازیت سہتے آرہے ہیں –
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہر دروازے پر دستک دے آئے ہیں لیکن ہماری فریاد اور درد کو کوئی نہیں سنتا ہے –
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی 73 کا آئین اور انسانی حقوق کا آرٹیکل نافذ نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں سیکورٹی فورسز آئین کی خلاف ورزی پر شہریوں کو اپنا شہری قرار دے کر تشدد نہیں کرتے ہیں، لیکن بلوچستان میں تشدد، گمشدگی مسخ شدہ لاشیں ملتے ہیں –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان گذشتہ کئی سالوں سے سراپا احتجاج ہے اور ہم اس ریاست سے روڈ، بجلی، اسپتال نہیں اپنے پیاروں کی بازیابی مانگتے ہیں –
مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانیت کے خلاف جرائم کی بدترین مثال ہے –
انہوں نے کہا کہ ان ماؤں، بہنوں کا سیدھا سادہ مطالبہ ہے کہ سالوں سے لاپتہ ان کے پیاروں کو منظر عام پر لایا جائے اور اگر اس ریاست کے ملزم ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دیا جائے –
جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر
#SaveZakirMajeedBaloch
ہیش ٹیگ پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے زاکر مجید سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے –
دوسری جانب کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 4282 دن مکمل ہوگئے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقع پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکرٹری بلاچ قادر، شکور بلوچ سمیت این ڈپی پی اظہار یکجہتی کیلئے کمیپ کا دورہ کیا –