بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4288 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر ممبر میر غفار قمبرانی، سابقہ صدر نیاز محمد لانگو، چمن سے پی ٹی ایم کے عبدالمنان کاکڑ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کجا اگر بلوچ صوبائی ممبران پانی کی ایک ٹینکی کیلئے اسمبلی میں قرار داد پیش کریں تو وہ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہونگے کہ منظوری کیلئے پریشر ڈال سکیں، یہ صرف مرکز اسلام آباد کے مہربانی پر ہوگا کہ وہ بے چارے بلوچ کو پانی دے کہ نہیں الغرض بلوچ ممبران کی یہ پاکستان پارلیمانی سیاست بس ایک سراب ہے جس کے پیچھے اگر پیاسا بلوچ قوم ہزار سال تک دوڑتا رہے تو وہ پیاسا رہے۔
مام قدیر کا کہنا تھا کہ تنظیم کی جانب سے بین الاقوامی اداروں کو کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی جبری گمشدگی کے اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے۔ بین االاقوامی توجہ اس جانب مبذول کروانے کیلئے احتجاج کے تمام ذرائع اپناتے ہوئے بھوک ہڑتالی کیمپ، پریس کانفرنس کیے گئے، اخباری بیانات دیے گئے اور سیمیناروں کا انعقاد کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ اپنی پرامن جدوجہد انسانی بقاء کیلئے قواعد و ضوابط کے مطابق کررہی ہے لیکن پاکستانی فورسز بلوچوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکمران بلوچ کیخلاف ملکوں کے امداد کو استعمال میں لارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو آنکھیں کھولنی چاہیے اور بلوچ مسئلے کو جانچنا چاہیے۔