کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

137

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4274 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے بیبرگ بلوچ، ثناء بلوچ، نور احمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بلوچ قومی سوال ایک تاریخی اور حل طلب مسئلہ ہے اور بلوچ لاپتہ فرزندوں کا مسئلہ بھی اس سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ بلوچ قوم کی زندگی اس ریاست نے اجیرن کردی ہے کیوںکہ بلوچ قوم نے اس جبری قبضے کیخلاف پرامن جدوجہد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ فرزندوں کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی اسی دن سے شروع ہوا جب پاکستانی ریاست نے فوجی آپریشن کرکے ہزاروں بلوچوں کو شہید اور لاپتہ کردیا۔ موجودہ صورتحال 2000 سے تاحال جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہزاروں افراد کوہلو کاہان، ڈیرہ بگٹی، مکران، مشکے، آواران، جھاو کے علاقوں میں وحشت ناک بمباری کی وجہ سے بلوچ اپنے گھر بار، کھیت کھلیان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے جو اب سندھ اور دیگر علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پاکستان سپریم کورٹ سے لیکر ہر فورم پر آواز اٹھائی مگر کہیں سے بھی انصاف کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس عظیم انسانی المیے پر پاکستان کی نام نہاد آزاد میڈیا، پاکستان نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پاکستانی سول سوسائٹی، نام ہاد ترقی پسند دانشوران کے ساتھ ساتھ بلوچ پارلیمنٹ پرست پارٹیاں برابر کے شریک ہیں۔