کتابیں اور بَدلتی دنیا – معشوق قمبرانی

371

کتابیں اور بَدلتی دنیا

تحریر: معشوق قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

دُنیا کے بڑے ذہن جب جسمانی طور پر فنا ہوجاتے ہیں تو وہ شعوری شکل اختیار کرکے ’کتاب‘ بن جاتے ہیں۔ یہ رگویداور َصحیفہء اول سے لیکر موسیٰ سے مارکس تک کی کہانی ہے۔یہ ہی سقراط سے لیکر سارتر تک کی دُنیا ہے۔

قُرونِ وسطیٰ کا یورپ ہزار سالوں کے اندھیروں سے کبھی نہیں نکل پاتا اگر جدیدانسانی ارتقائی علم،سائنس اورشعور کے پایہء دان ڈارون، کوپرنکس، گیلیلو، مارٹر لوٹھر، روسو، والٹیر، مانٹیککیو، ڈاونچی اپنی ذہن جھنجھوڑنے والی تحاریر نہیں لکھتے اور ان کے پاداش میں عقوبتیں نا سہتے۔

انقلابِ فرانس کبھی بھی ساری دنیا کی شہنشاہتوں کو نہیں جھنجھوڑتا اگر اس انقلاب کی سیاسی،نظریاتی و انقلابی پختگی کے پیچھے والٹیئر،فریئر، روسو اور مانیٹسکیو کے افکار،نظریات و تحاریر نہیں ہوتیں۔

کس طرح مصر کے قدیم احراموں کی عبارتوں سے لیکر بابل،سمیر اور سندھوتہذیبوں کی قدیم بھاشاؤں تک علم ِ انسانی کی شعوری کھٹبندھن آپس میں بندھے ہوئے ہیں، جنہوں نے انسانی تاریخ کی سب سے اوائل انسانی تحاریر کو ہزاروں سالوں تک اپنے سینے میں سموئے رکھا۔
علم ِتاریخ کے ابے ہیروڈٹس کے نقشوں کی دنیا سے پہلے ہماری رُوءِ زمین کی اصل شکل و صورت کیا تھی، کہاں سرحدیں تھیں؟ کہاں مذہب تھے؟ کہاں نظرئے تھے؟ کہاں قومیں اور ریاستیں تھیں؟وہ د نیا کے سارے نظریوں و سرحدوں سے پاک ایک آزاد فطری انسانی دُنیا تھی۔

کس طرح اتھینر کے ایکروپولس کے پہاڑی قلعے سے قدیم یونانی دیومالائی نظریات، بحث مباحثات اور علم،فلسفے،تھیٹر،نثر و نظم پر مبنی تحاریر و تقاریر کا جلتا ہُوا فلاسافی کا وہ دِیۂ آگے چل کر ساری دنیا کا علوم کی شاخوں کا سمندر بن جائے گا ۔ نظریات پھیلتے گئے، سیزر سے لیکر سکندر تک رومی سلنطنت سے لیکر یونانی امپایر تک دُنیا میں کئی سلطنتیں، نئی سرحدیں، نئی ریاستیں، نئی قومیں بنتی گئیں اور دنیا کے عظیم ریاستیں، طاقتیں اور سلطنتیں تاریخ کے کتاب میں عروج اور زوال کے اوراق بنتی گئیں۔

کس طرح کتابیں ذہن تبدیل کرتی ہیں،کس طرح دُنیا تبدیل کرتی ہے۔ ٹریٹی آف ورسائیلز (1919ع) کے بعد وہ ساری نئے نظریات اور خیالات کی ہی لڑائی تھی۔جن کی بنیاد پر ریاستوں نے اپنی طاقت اور پھیلاؤ کے نئے پئمانے بنالیئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر سرد جنگ تک ذہنِ انسانی کے نظریات محاذوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔کسی محاذ پر وہ شعور اور آدرشوں کی جنگیں تھیں تو کسی محاذ پر وہ لوٹ مار، قبضوں اور حوس کی جنگیں بن گئی تھیں۔

ڈارون کے اوریجن آف اسپیشیز، میکاولی کے پرنس، روسو کے سوشل کانٹریکٹ، مارکس کے دا س کیپیٹال،وکٹر مارسڈن کے یہودی پروٹوکول اور ہٹلر کے مینیکیف سمیت دُنیا کے وہ دس عظیم کتابوں میں سے سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے دُنیا تبدیل کی۔

ٹافلر کی تیسری لہر اور فیوچر شاک، پروفیسر ہریری کی سیپنیز اور ہوموڈیوز اور گارشیا مارکیز کے تنہائی کے ایک سؤ سال کتابیں موجودہ دور کے ذہن جھنجھوڑنے والی کتابوں میں سرفہرست ہیں۔یہ کتابوں کی وہ بڑی دنیاہے۔جو لاکھوں سالوں سے ذہنِ انسانی کے شعور،سمجھ،اور علم و عقل کی ارتقا کی سیڑھیاں چڑھتی ہیں۔جن میں ہزاروں فلسفیوں اور سوچنے والے انسانوں کے ذہن کتابی صورت میں آج بھی زندھ ہیں۔
آج کی دنیا کے سارے علوم جدید سائنسی اور کمیونیکیشن ٹیکنالاجی کی وجہ سے بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ذہنِ انسانی صدیوں تک جن پتھروں،پتوں اور کاغذوں پر لکھے ہوئے کتابوں کو سمیٹنے، سنبھالنے، پڑھنے اور پڑھانے میں لگا ہوا تھا،آج وہ ہی ذہنِ انسانی جدید دور کے ٹیکنالاجیکل آلات کے ذریعے پڑھنے اور پڑھانے کے نئے نئے طریقے دریافت کرتا جا رہا ہے۔ کمیونیکشن ٹیکنالاجی اتنی تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی ہے کہ انسانوں کو اب شاید ہارڈ کاپی بوکس پڑھنے کی فرصت ہی نا ملے۔ دنیا کے سارے سائنسی علوم، نظریات، فلسفوں کی کتابیں اور ہزاروں لائبریریاں اب الیٹرانک ہو چکی ہیں اور بڑی تیزی سے ذہنِ انسانی ’کاغذی دُنیا‘ سے نکل کر’برقی دنیا‘ کا مسافر بنتا جا رہا ہے۔کتابوں کی دنیا میں ان ساری جدید ٹیکنالاجیز نے ایک طرف جہاں پر بہت ساری سہولتیں اورجدتیں لائی ہیں، وہاں پر دوسری جانب ذہنِ انسانی کو کافی قدرشارٹ کٹر،کاپی پیسٹر، ذہنی طور پر مفلوج اور کھوکھلا بھی بنا کر رکھ دیا ہے۔کہ اب لوگوں سے کتابیں پڑھی نہیں جاتیں اور اگر کوئی پڑھ بھی لیتا ہے تو ان سے’ذہنی جھنجھوڑ‘ (Brain Storming) نہیں ہو پاتی۔اب تو لوگوں نے خود سوچنے کے بجائے دوسرے کے کاپی پیسٹ خیالات پر واہ واہ اور تالیاں بجانے کی عادت بنادی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے میتھمیٹیکل حساب کے لیئے کلکیولیٹر اٹھا لیتے ہیں۔حالات و سیاسیات کا ادراک کچھ بھی نہیں رہا۔ اچانک ہونے والے واقعات پر ردعمل دینے کی مشین بنتے جا رہے ہیں۔

پہلے جتنی علمی پیاس ہارڈ کاپی کتابیں بجھایا کرتی تھیں، کتابون کو ڈھونڈنے اور پڑھنے کی تڑپ ہوتی تھی۔ کتابیں پڑھنے بعد دوستوں کے سیاسی سماجی سرکلز میں ان نظریات پر بحث مباحثے ہوتے تھے،گرما گرمی ہوتی تھی۔جس کے رد عمل میں آکر اور زیادہ کتابیں پڑھنے کا جنون ہوتا تھا۔

اب الیکٹرانک لائیبریریز میں کروڑوں کتابوں کا ذخیرہ ہونے کے باوجود ذہنِ انسانی ان کو پڑھنے اور اس علم کی اس طرح حاصلات کی تڑپ سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔آج دنیا کے کئی ملین لوگ اپنا 50 پرسنٹ سے زیادہ وقت انٹرٹیمنیٹ کی سائیٹس اور سوشل میڈیا پر بتا رہے ہیں۔سوشل میڈیا نے جہاں پر ایک طرف انفرمیشن کے ذرایع کو تیز ترین کردیا ہے تو دوسری جانب ذہنِ انسانی کے اصل پہچان اور تخلیقی صلاحیت کو کھوکھلا کردیا ہے۔جس کا بھرپایہ پہلے کتابیں کیا کرتی تھیں۔ ماڈرن جنریشن جتنا ٹیکنالاجی میں گم ہوتی جا رہی ہے، اتنا ہی فطرت حقیقی حسناکیوں اور فطری محسوساتوں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ نسلِ انسانی نے اب زندھ ذہن انسان پیدا کرنے بند کردیئے ہوں اور روبوٹک جنریشنز پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ایسا لگتا ہے جن میں کوئی زندھ احساس نہیں ہو، بلکہ ہر طرف لگزریز کے دوڑ، مفادات کی حاصلات اور نفسانفسی کی ذہنیت او رجحانات جنم لیتے جا رہے ہوں۔ اس طرح یہ اس جنت جیسی دُنیا کو روبوٹک ایج کے انسان پروفیشنلزم کے نام پر ’کمرشل جہنم‘ بنادیں گے۔ دُنیا میں آج تک کسی بھی جاہل نے کوئی انقلاب نہیں لایا۔تو یہاں بھی کسی جاہل اور جہالت کے ذریعے انقلاب آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ہر انقلاب علم کی روح سے پھوٹ کر نکلتا ہے۔ بقول سائیں جی ایم سید کے کہ ’قومی انقلاب لانے سے پہلے ذہنی اور شعوری انقلاب لانا ضروری ہے۔‘ وہ صرف کتابوں کو پڑھنے سے ہی لایا جا سکتا ہے۔

وہ کتابیں ہی ہیں جو ہم کو بتاتی ہیں سارے لوگ ایک طرح نہیں سوچتے ، ہمیں الگ الگ ذہنوں کے الگ الگ خیالات و نظریات کی ورائٹی اور ڈائیورسٹی کا پتا بھی ان کے لکھے گئے کتابوں سے چلتا ہے۔
ہمارے سماجوں میں آج کی جنریشن کتابوں سے دُور بھاگ رہی ہیں اور سوشل میڈیا اور انٹرٹیمینٹ کی دوسری ساری ویبسائیٹس میں غرق الذہن بنتی جا رہی ہے۔جو رُجحان آگے چل کر زندھ دل انسانوں اور زندھ ذہنوں کی تخلیقی،تعمیری او ر تجدیدی صلاحیتوں کے لیئے ہیومن ڈزازسٹر ثابت ہوگا۔

جس سے بچنے کے لیئے ہمیں ایک بار پھر کتابوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔کتاب ہی حقیقی دوست اور حقیقی رہنما ہوتے ہیں۔کیونکہ انسان کی حقیقی راہِ نجات کا سچا راستا صرف علمی، عقلی اور شعوری جھنجھوڑ سے ہی نکلتا ہے اور کتاب اس کا دروازہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں