ڈی چوک
تحریر: شیہک مہر
دی بلوچستان پوسٹ
مصروفیاتِ زندگی کی چلتی گردش میں مگن دوست آپس میں بیٹھے گپیں لگارہےتھے کہ اچانک خبر ملی کے وہ خاندان جو کئی برسوں سے اپنے پیاروں کیلئے دربدر پھر رہے تھے، وہ مائیں جو اپنے لختِ جگر اور چھوٹی معصوم بہنیں جنکے کھیلنے کی عمر ہے، اپنے بھائیوں، باپ اور بیٹوں کے انتظار میں ہر در کی ٹھوکریں کھا کر اور مایوس ہو کر شہرِ اقتدار اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھیں لیئے پہنچے ہیں اور اپنا وطن چھوڑ کر کسی غیر کے دیار میں، اپنے پیاروں کو اس جہان کے قیامت سے نکالنے کے لیئے یکجا ہو کر روانہ ہوئے ہیں۔
یہ سنتے ہی، سوشل میڈیا پہ غم سے نڈھال ذاکر جان کی اماں، روتی ہوئی حسیبہ، چیختی ہوئی چھوٹی ماہ زیب اور ان سب کا خیال رکھنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ ذہن میں گردش کرنے لگے۔
خواہش تو ہر وقت دل میں یہی تھی کہ اس چھوٹی سی زندگی میں اس قوم کا ایک فرد ہونے کے ناطے کچھ نہ کچھ اپنا حصہ بھی ڈال دیں اور قربانیوں کے لازوال سمندر میں اپنا حصہ بے شک ایک کوزہ پانی کے برابر تک ڈال سکیں.
خیر صبح ہونے کا بے صبری سے انتظار تھا، صبح ہوتے ہی ہم نیشنل پریس کلب اسلام آباد روانہ ہوئے، اس سے پہلے جو جو ذمہ داریاں ہمیں دیں گئیں تھیں، وہ سب مکمل کرلیئے اور وہاں پہنچے پہلا دن تھا سیکیورٹی والے کیمپ لگانے سے منع کر رہے تھے، کافی بحث مباحثے کے بعد بالآخر کیمپ لگانے کی اجازت دی گئی۔ مائیں اور بہنیں جو اپنا درد بھول کر ہمارے لئے فکرمند ہونے لگیں کہ کہیں انکو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
پہلے دن ماؤں اور بہنوں کے درد کو نزدیک سے دیکھ کر ہم سب آبدیدہ ہوگئے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کہتے ہیں کہ ایک قیامت ہے جو کبھی بھی آسکتی ہے، میں نے کہا اس سے بڑی قیامت اور کوئی نہیں آسکتی۔
اسی طرح ایک ہفتہ گذر گیا، روزانہ کی وہی روٹین،احتجاج کرنے، کیمپ نکالنے اور پھر صبح لگانے میں دن گذر جاتا لیکن ان ماؤں کو کیا پتہ کہ اس ریاست کے دل میں بھی ہمیں کوئی سننے کیلئے تیار نہیں۔
آخر شال کے پریس کلب کی طرح اسلام آباد کے پریس کلب سے بھی مایوس ہو کر ایک سخت قدم اُٹھانےکیلئے سب راضی ہوگئے۔
اگلا لائحہ عمل تھا ڈی چوک کو بند کرنے کا ، جو بالکل ناممکن لگ رہا تھا، لیکن ماں اور بہنیں بھی اس مشکل عمل سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔
انکی بہادری سےبولان کی ندی کی پانی میں مزید جوش آیا، چلتن کی چوٹی فخر سے مزید بلند ہوئی، کوہ سلیمان سر سبزی سے سرشار ہوا، مکران کے ادیب بھی گل و بال ہوئے اور ساراوان و جھالاوان کے نام نہاد میر سردار و نواب کے سرجھک گئے۔
خیر چلتے ہیں اگلے سفر کی جانب، جہاں پہ درد و تکلیف اور مصائب سے دوچار ماں بہنوں کو دیکھ کر مجھے ایک دوست سے سنا ایک شعر یاد آیا کہ( بڑا کٹھن ہے یہ راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو) خیر سارے سنگت ، ماؤں اور بہنوں نے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد سفر کرنے کےبعد ڈی چوک پہنچ گئے۔
پریس کلب سے ڈی چوک تک کے درمیان ماؤں اور بہنوں کو آگے جانے سے روکا گیا لیکن جتنا ہوسکا ہم سے، ہم ان کی حفاظت کرتے رہے، وہاں پہنچ کر بھی انہیں کچھ دن مزید سخت سردی، کھلے آسمان اور روڈوں کے اوپر دن میں دھوپ اور رات کو سردی، بھوک و پیاس کو برداشت کر کے ہمت نہیں ہارے۔
ہم بھی ان کے ساتھ رہ کر گویا دشت بیبانوں میں خانہ بدوشی کا رسم زندہ کر رہے تھے، وہاں دن بھر اپنی دکھی کہانیاں ہر صحافی اور دیگر طبقے کے لوگوں کو سنانے اور شام کے وقت فورسز کے دھمکیوں کو سہنے کے بعد، ہم رات کو سونے سے پہلے جا کر ان کے ساتھ بیٹھ کر دیوان کرتے تھے ہمیں ایسا محسوس ہونے لگتا تھا کہ ہم دور نہیں بلکہ اپنے گھر بلوچستان میں ہی ہیں. سلسلہ چلتا گیا کچھ حکومتی نمائندے آکر انکے مطالبات سن لیتے اور ہمیشہ کی طرح وہی جھوٹی تسلی دے کے چلے جاتے کہ آپکے پیاروں کو بازیاب کی جائیگا. امید کرتے ہیں اس بار انکے وعدے ایفاء ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔