بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جارحیت میں ہر آئے دن تیزی آرہی ہے بلوچستان کے طول و عرض میں لوگوں کو قتل اور جبری گمشدہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ڈیرہ بگٹی، کاہان اور سبی سے متصل ضلع لہڑی میں پاکستانی فوج نے گذشتہ دنوں جارحیت کی ایک نئی لہر شروع کی جس میں چار افراد کو قتل اور کم ازکم 7 افراد کو اغوانما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا ہے۔
پاکستانی فوج کے پیدل دستے نے ہفتے کے روز ضلع کوہلو کی تحصیل کاہان میں کوڈی پیشی نامی گاؤں کو گھیرے میں لیکر وہاں جارحانہ کارروائی کی۔ گھروں پر گولیاں چلائی گئیں۔اس جارحیت میں نو سالہ بچہ علی داد ولد جندو کو ان کے والد جنود سمیت قتل کر دیا گیا، جب کہ اس کے 15 سالہ بیٹے غلام محمد ولد جندو کو زخمی حالت میں ان کے چچا زاد کے ساتھ جبری لاپتہ کردیا گیا۔
اتوار کے دن سبی سے متصل ضلع لہڑی کے گوڑی نامی گاؤں میں پاکستانی فوج نے 75 سالہ عمررسیدہ ہزارو ڈومکی کے گھر پر حملہ کیا۔ ان کے سامنے ان کے دو نہتے بیٹوں علیم ڈومکی اور حمید ڈومکی کو قتل کردیا گیا۔ اس خونریزی کے بعد جندو کو ان کے ایک اور بیٹے عطاء اللہ سمیت جبری لاپتہ کردیا گیا۔
ترجمان نے کہا بلوچستان میں پاکستانی فوج کی قتل و غارت گری اور جبری گمشدگیوں نے ایک انسانی بحران پیدا کیا ہے جس نے کوہ سلیمان سے لے کر بحر بلوچ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ ان پر عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے۔ 19 فروری 2021 کی شام ڈیرہ بگٹی کے علاقے پٹ فیڈر میں چار نوجوانوں کو پاکستانی فوج نے ایک شادی کی تقریب سے اٹھاکر لاپتہ کیا ہے۔ ان کی شناخت رسولا ولد مندا بگٹی، گمال ولد لالا بگٹی، جونگ ولد توکلی بگٹی اور بوجل ولد علی بگٹی کے نام سے ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا بی این ایم عالمی سطح پر ان گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے لیکن اس مسئلہ کو انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ جب تک عالمی طاقتیں بلوچستان کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتیں تب تک بلوچستان میں پاکستانی مظالم ختم نہیں ہوں گے۔
بی این ایم ترجمان نے کہا کہ بلوچوں کے لیے نہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں بلکہ بندوبست پاکستان کے ہر کونے میں ریاستی عناصر نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ کراچی کے بلوچ علاقوں میں ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ گروہوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہاں عوام میں سیاسی اور علمی بیداری کی لہر کو روکا جاسکے۔
ماضی میں بھی جان بوجھ کر لیاری کو جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بنایا گیا تاکہ وہاں بلوچ آبادی کو علمی اور سیاسی بنیادوں پر پسماندہ رکھ کر ان کے بلوچستان سے رشتوں کو کمزور کیا جاسکے۔ لیاری بی این ایم کے بانی چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ کا دوسرا گھر تھا۔ اسے لاوارث سمجھنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کو کسی بھی محاذ پر کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ لیاری قوم دوست جماعتوں کی جنم بھومی ہے۔ جرائم پیشہ اور بدکردار گروہوں کو علاقے میں پنپنے سے روکنے کے لیے قومی سیاسی سوچ کے ساتھ منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے ہر بلوچ کا دل لیاری کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ بلوچستان میں رہنے والے بلوچ لیاری کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔