بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ہے کہ سوئزرلینڈ میں مقیم بی این ایم کے سینئر رکن حاجی انور ایڈوکیٹ پر سوئس حکام کی جانب سفری پابندیاں اور الزامات مہذب معاشروں کی اقدار کے منافی ہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق سیاسی رہنما ہیں جو زمانہ طالب علمی سے بلوچ قومی سیاست میں برسرپیکار ہیں۔ اس جدوجہد میں ان کے فرزند زہیر بلوچ کو پاکستانی فوج نے اغواء کے بعد ٹارچرسیل میں اذیت رسانی سے قتل کرکے اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے سیاسی رہنماؤں پر شدید دباؤ، مارو اور پھینکو پالیسی جیسے بربریت سے جان بچاکر بلوچ سیاسی آواز کو مہذب دنیا تک پہنچانے کے لیے حاجی انور ایڈوکیٹ سمیت لاتعداد سیاسی کارکنوں نے مغربی ممالک کا رخ کیا تاکہ وہ وہاں سے بلوچ قومی تحریک کے لیے آزادی سے جدوجہد کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ سوئس امیگریشن کی جانب سے حاجی انور ایڈوکیٹ کی سفری دستاویز کی واپسی اور انہیں خطرہ قرار دینا ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے کیونکہ موصوف بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کے علاوہ کسی اور سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ اس جدوجہد کی پاداش میں ہم پر ہماری ہی سرزمین بلوچستان میں اسی طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ اگر یہی روش یورپ کے تہذیب یافتہ ممالک میں اپنایا گیا تو بلوچ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ یہ ممالک پاکستان کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر بلوچ سیاسی رہنماؤں پر پابندیاں لگا رہی ہیں۔ جبکہ بلوچ قوم مہذب ممالک اور اقوام سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بلوچ قوم پر ہونے والی زیادتیوں اور بلوچ سرزمین پر زبردستی قبضہ کے خلاف پاکستان کو جوابدہ ٹہرائیں گے۔
ترجمان نے کہا ہم سوئس حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ حاجی انورایڈوکیٹ کے کیس پر نظرثانی کرکے انہیں عالمی سطح پر طے شدہ سکونت و سفری دستاویز سمیت سیاسی پناہ گزین کے تمام حقوق دے دیئے جائیں۔