وہ اپنی کرنی کر گذرے
تحریر: اصغر علی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ شروع دن سے نوشتہ دیوار تھا اور میرے خیال میں حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ سانحہِ ڈنک کے مرکزی کردار سمیر سبزل کو آج تربت سیشن کورٹ کے جج محمد رفیق لانگو نے باعزت بری کردیا۔ جب میں نے اس حوالے سے سانحہ ڈنّک میں جان بحق ہونے والی خاتون، ملک ناز کے بھائی اعظم سے یہی سوال کیا تو اسکا جواب کچھ یوں تھا “اگر سچ کہوں، تو ہمیں پہلے سے یقین تھا کہ ہماری بہن کے اصل قاتل سمیر سبزل کو بچانے کی ہر کوشش کی جائے گی۔ مگر نہ جانے کیوں کبھی کبھی دل میں یہ خیال ابھر کر آتا کہ عدالت اور انصاف کرنے والے ادارے شاید انسانیت کی خاطر تمام دباو کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں انصاف دے سکیں گے۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ اگر سچ کہوں جس چیز کی امید نہ ہو وہاں افسوس کس بات کی۔ ”
سانحہ ڈنّک گذشتہ سال 26 مئی کی درمیانی رات کو تربت کے علاقہ ڈنّک میں پیش آیا۔ جس میں چند اسلحہ بردار نے گھر میں گھس کر گھر والوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تھی۔ اور گھر والوں سے کہا تھا کہ اُن کا تعلق پاکستان کے خفیہ اداروں سے ہے۔ اور وہ گھر کے مرد حضرات کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے آئے ہیں۔ مگر اس دوران موجود، نڈر عورت ملکناز نے بہادری سے مزاحمت کی؛ جسکے نتیجے میں اسلحہ برداروں نے ملکناز پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر جان بحق ہوگئی۔
ملکناز جو اپنی تین سالہ بچی، برمش کو گود میں اٹھائی ہوئی تھی،گولیوں کی زد میں آکر برمش زخمی ہوگئیں۔ دریں اثناء آس پاس کے رشتہ دار جائے واردات پر پہنچ گئے اور بامردی سے ملکناز کےایک قاتل، الطاف نامی شخص کو قابو میں کرلیا۔ جبکہ اُسکے دوسرے ساتھی جائے وردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
پکڑے جانے والی شخص علاقہ مکین کو دھمکاتا رہا کہ اُن کا تعلق پاکستان آرمی اور جاسوسی کے اداروں سے ہے۔ اور ان کو سنگیں نتائج کی دھمکی دیتا رہا۔ لیکن ملکناز کے رشتہ داروں نے پولیس کو خبر کردی اور ملزم الطاف کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس کی ابتدائی جانچ پڑتال پر ملزم الطاف نے اعتراف جرم کیا اور پولیس کو مزید بتایا کہ اُن کا تعلق سمیر سبزل کی گینگ سے ہے جو خفیہ اداروں کی ایماء پر کام کر ہے ہیں۔ سمیر سبزل جو کہ ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ ہیں، اسی کے کہنے پر وہ یہ ساری واراتیں کرتے آ رہے ہیں، اور سمیر سبزل انکو اسلحہ فراہم کرتا ہے اور انکی پشت پناہی بھی وہی کر رہا ہے۔ پولیس نے بعد میں دوسرے نامزد، بشمول سمیر سبزل کو حراست میں لے لیا۔
ڈیتھ اسکواڈ :
ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ بلوچستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن میں ڈرگز مافیا سے لیکر اسلامی شدت پسند لوگ شامل ہیں۔ بعض علاقوں میں انکی سربراہی اور کمان وفاق پرست وزیر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان آرمی اور پاکستان کے مختلف جاسوسی ادارے ، بلخصوص آئی ایس آئی اور ملیٹری انٹیجس کے چھتری کے نیچے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جن کو فورسز کی جانب سے کھلی آزادی حاصل ہے۔
پاکستان نے بلوچ آزدی پسند قوتوں کو دبانے کیلیئے ان کو کاؤنٹر فورس کی طرح تشکیل دی ہوئی ہوتی ہے تاکہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو موثر طور پر دبا سکیں۔ انکا بنیادی کام بلوچ آزادی پسند لوگوں کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے۔ مزید آگے چل کر آزادی پسند لوگوں کو اغواء کرنا، انکو قتل کرنا شامل ہے۔ بعض علاقوں میں انکی نجی جیل بھی ہوتے ہیں،جہاں پر یہ بلوچستان کی آزادی کے لیے کام کرنے والے یا انکی بے گناہ رشتہ داروں کو رکھ کر انکو شب و روز دل سوز اذیتیں دی جاتی ہیں۔
ڈیتھ اسکواڈ میں کچھ گنے چنے سر براہ ہوں گے ، جن کو سرکار کی جانب سے مال و زر سے نوازا جاتا ہے۔ مگر جب سے انکی تعداد بڑھتی جارہی ہے تو انکے انعامات و کرامات تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس بات کا انکشاف بلوچ آزادی پسند جنگجووں کے ہاتھوں پکڑے جانے والی ڈیتھ اسکواڈ کے ممبروں کی وڈیو دیکھ کے ہوتا ہے کہ وہ صرف چار سے بیس ہزار پاکستانی روپوں یا ایک موبائل کی خاطر لوگوں کی مخبری کرتے ہیں حتیٰ کہ پکڑے جانے والے مخبروں نے علاقوں میں فوجی آپریشن کروائے اورکئی بے گناہ لوگوں کو قتل تک کئے۔ بہرحال ہوتا یوں ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے انکو پیسے کمانے کیلئے کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ ڈرگز کے کاروبار سے لیکر چوری اور ڈکیتی میں مصروف رہتے ہیں۔
سانحہ ڈنک کا عوامی ردِ عمل:
سانحہ ڈنک اپنی نویت کا پہلا واقعہ نہیں تھا اور نہ آخری ہے۔ اسے پہلے تربت کے مختلف علاقوں میں ڈکیتی کے واقعات زور پکڑتے جا رہے تھے۔ سانحہ ڈنک کے فوراً بعد کیچ کے تحیصل تمپ میں اسی طرح کا واقعہ نمودار ہوا جب ملزمان نے ٹھیک اسی طرح گھر میں گھس کر ایک خاتون کلثوم بی بی کو خنجر مار کر جانبحق کر دیا۔
چونکہ ڈنک کے واقعہ میں ملزم جائے وقوع پر دھرلیے گئے تھے۔ اور وہاں عوام روز روز کی واقعات سے اکتا گئی تھی تو مجرم موقع واردات پر پکڑے گئے، اب پکڑے گئے ملزم کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے تاکہ وہ ایک عبرت کا نشان بن جائے۔ اسی لیے عوامی ردعمل شدت اختیار کر گئی اور عوامی انقلاب کی شکل اختیار کرتی گئی۔
اسلام آباد اور روالپنڈی میں بیٹھے چوکیداراں کو ڈر سا لگنے لگا کہ ایسا نہ ہوکہ بُجھا شعلہ پھر سے ہواؤں کا ہمسفر نہ بن جائے۔ اسی لیے عوامی لاوا کو ٹھنڈا کرنے لیے سرکار نے اپنے وفادار ایلچیوں کو میدان میں چھوڑ دیا کہ وہ جاکر اِنصاف کی طفلِ تسلی کو دھائی دے کر آگ اور شعلہ برساتی معاملے کو سرد خانے میں وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کیلیئے چھوڑ دیں۔ تاکہ جذبات “مرے لاٹھی نہ ٹوٹے۔” اور یہ حکمت کام کرگئی، بلکہ یوں کہیے کہ ایک تیر سے تو شکار کرنے کا موقع ہاتھ لگ گئی۔
ایک تو یہ کہ بلوچستان کے عوام جو پچھلے ایک دہائی سے خوف کی زندگی جی رہی تھی، سانحہ ڈنک نے ان کو ایک بار پھر بلوچستان بھر میں سڑکوں پر لانے میں ایک پُل کا کردار ادا کیا، اس عوامی سیلاب کو روکنے کے لیے مجرموں کو گرفتار کرکے دبایا گیا۔ دوسری بات یہ کہ سمیر سبزل جو کئی مقدمات میں اشتہاری تھا، واقع ڈنک کی آڑ میں اسکے ماضی کے سارے جرائم کو آب زم زم میں غوطہ دیکر پاک و شفاف کردیا گیا۔ بدقسمتی سے برمش کو اِنصاف نہ مل سکا، اور کیس کے مرکزی کردار سمیر سبزل باعزت بری ہو گئے۔ جن کو بلّی کا بکرا بننا تھا سو وہ بن گئے۔
اس ضمن میں برمش کے والد حامد غلام نے کہا، “ہم نادر لوگ کچھ نہیں کر سکتے، مگر ہم جانتے ہیں کہ قاتل کون ہے، اور ہم یہ بھولیں گے بھی نہیں۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔