وڈھ! امن کے فرشتوں کی ناراضگی! منان مینگل

371

کسی دانا انسان نے کہا تھا کہ بلوچستان کے کسی بھی کونے میں کچھ ہوجاٸے تو اس کا نزلہ آخر کار آ کر وڈھ کے عوام پر ہی آ گرتا ہے۔ اور اس بار تو بلوچستان میں کچھ سے آگے بہت کچھ اور اس سے بھی آگے تباہی تک بات جا چکی ہے۔ لہٰذا اس بار وہاں میرے دیس میں بھی ”جہنمی“ آگ لگے گی۔

وڈھ جو کہ شہید نورا و گہرام، شہید میر علی محمد مینگل، شہید عبدالعزیز و شہید عبدالرحمٰن کا دیار ہے۔ یہ سردار عطااللہ خان مینگل و شہید نورالدین مینگل کا گھر ہے۔ یہاں دراکھالہ و سارونہ کے کروماٸٹ و ماربل کے قیمتی ذخاٸر ہیں تو وہیں ان ذخاٸر کو بے دردی سے لوٹنے والے مقامی و غیر مقامی لٹیرے موجود ہیں۔ وڈھ میں جہاں قدرت نے ذرخیزی کے نمایاں خاک چھپا رکھے ہیں تو وہیں پہ اسی دھرتی پر ایسے ڈاٸن و جلاد قسم کے لوگ بھی پیدا کر رکھے ہیں کہ جن کے ساٸے سے بھی کسی شریف مہذب و امن کے پیامبر نفیس انسان کو ڈر لگتا ہے۔ یہ لوگ میرے دیار میں امن کو اپنی پیٹ کا دشمن سمجھ کر ایسے اڑا ڈالتے ہیں جیسے کوٸی قبضہ گیر وطنی باشندوں کے سروں کو اڑا ڈالتا ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہے اپنی عیاشیوں اور آساٸشوں کی فراوانی کے لیے لوٹ مار میں کوٸی رکاوٹ نہیں آنے دینا۔

وڈھ میں نام نہاد ننگ و ناموس کی آڑ لے کر خواتین کو کاروکاری کے الزام میں وحشیانہ انداز میں قتل کرنا ہو یا پھر آپسی جنگوں میں اپنے بھاٸیوں کا خون بہانا، چوری ڈکیتی کے دوران جرأت انکار پر براہ راست قتل کرنا یا پھر اغوا براٸے تاوان کے ذریعے پیسے بٹورنا، ساحل و وساٸل کی بات کر کے قدرتی خزانوں کا لوٹا جانا ہو یا پھر قباٸل کے اشتراکی زمینوں پر قبضہ کرکے عام مفلوک الحال عوام کو بھوکا رکھنا، ان تمام لوٹ ماری پیشوں میں امن کے دشمن انتہاٸی ماہر ہیں۔ اور اپنے کام میں انتہاٸی پروفیشنل بھی ہیں۔

وڈھ میں گزشتہ 20 سال میں بالعموم اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد سے بالخصوص درجنوں لوگ دن دیہاڑے قتل کیے گٸے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان شاطروں نے اپنی پہچان ظاہر کرنے کی کوٸی معمولی سی غلطی بھی کر ڈالی ہو۔ ان امن دشمنوں کی آپسی دشمنی بھی انتہاٸی ماہرانہ انداز میں نبھاٸی جارہی ہے۔ آج بھی لاشیں اٹھانے والا عام مجبور و مقہور لاچار عوام ہے۔ لیکن لاش پر اپنی اسکورنگ کرنے والے یہی طاقتور و پیشہ ور امن دشمن گروہ ہیں جن کا اپنا بال آج تک کبھی بیکا بھی نہیں ہوا۔

یہاں ودیش میں بیٹھ کر شیخوں کی مزدوری کرنا اور پھر اپنے عوام کی پِسی ہوٸی حالت سے واقف رہنا بھی کمال کا جبر ہوتا ہے اپنے وجود پر۔ ایک طرف رات بھر ان شیخوں کی عیاشیوں کو دیکھنا، ان امیر شہزادوں اور شہزادیوں کی مستیوں کو دیکھنا اور پھر اپنے حاکم طبقے کی علاقاٸی خرمستیوں کو ملاحظہ کرکے اپنے لوگوں کی بدحالی کا اندازہ لگانا انتہاٸی تکلیف دہ عمل ہے اور یہاں ہم روزانہ اس جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ شعور بھی کیا کُتی چیز ہے جتنا حاصل کرو اتنا ہی تکلیف و جبر بڑھتا رہتا ہے۔

جس طرح شیخ ہمارے لیے ”ہَمار“ یا پھر ”ولد الہمار“ یعنی ”گدھے یا گدھے کے بچے“ کے الفاظ استعمال کر کے ہمیں ہماری اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں تو وہیں ہمیں ہمارے امن دشمن آقاٶں کا ہمارے سفید ریش بزرگوں کے ساتھ ہو بہو عربیوں کا سا رویہ یاد دلاتا ہے۔ یہ شیخ تو پھر بھی غیر ہیں سرمایہ داری کی زبان میں ہمارے آقا و مالک ہیں مگر ہمارے مقامی آقا تو علاقے سے باہر دوسرے لوگوں میں ہمیں ”اپنا اپنا“ کہہ کر بلاتے ہیں مگر آمنے سامنے ہمارے ساتھ وہی غلاموں کا رویہ رکھتے ہیں۔

شاید یہی وہ عادات و عیاشیاں ہیں جو انہیں وڈھ میں امن کا داٸمی دشمن بنا بیٹھے ہیں۔ جو چاہتے ہی نہیں کہ وڈھ میں امن ہو وڈھ میں سکون ہو کیونکہ جب امن ہوگا تو روزگار آٸے گا روزگار ہوگا تو پیٹ بھوکا نہ ہوگا پیٹ بھرا ہوگا تو دماغ توانا رہے گا، دماغ کے توانا ہونے سے زہن میں سوالات اٹھیں گے۔ اور سوالات تو پھر انسانی سماج کے ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں، استحصالی لٹیروں کے وجود کو مٹانے والے ہوتے ہیں۔

آج انہی بنیادوں پر حاکم طبقہ اپنی دہشت بٹھانے ، اپنی بالادستی کو قاٸم و داٸم رکھنے اور وڈھ کی عوام کو آپسی کشت و خون میں مبتلا کرکے اپنا منافع بخش دھندا جاری رکھنا چاہتا ہے اور اپنے اس چال میں وہ پچھلے ڈیڑھ دہاٸی سے کامیاب رہا ہے۔ موجودہ کشت خون بنیادی طورپر وڈھ کے دو حاکم قبیلوں کی اپنی اپنی جاگیری قبضہ داری کے اضافے کی جنگ ہے جو آج سے تقریباً 20 برس قبل شروع ہوا لیکن ان دونوں حاکم خاندانوں کو آنچ تک نہیں آٸی ہے۔ وہ آج بھی ایک طرف پارلیمنٹ میں اپنی حرام خوری جاری رکھے ہوٸے ہیں تو دوسری طرف غریب عوام کو اپنے شکنجے میں بری طرح جکڑنے میں کامیاب ہوٸے ہیں۔

وڈھ کا یہ شاطر حاکم طبقہ عام آدمی کا خون بہا کر اسے اپنے انگلیوں پر نچانے میں کافی کامیاب رہا ہے۔ ان دونوں قبیلوں کا حاکم طبقہ آپسی جاگیر و جاٸیداد کے قباٸلی جنگ کو سیاسی رنگ دے کر عام عوام کو استعمال کر رہے ہیں اور اس قتل غارت کی بنیاد پر اپنا سیاسی کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کے اس خون و دہشت کے کاروبار کی وجہ سے شہید ھدایت اللہ، شہید قاسم، شہید ذکریا، شہید عارف، اور شہید طاہر لہڑی جیسے درجنوں لوگ ان کے وحشی جنگی معیشت کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن آج تک ان دونوں خاندانوں کی معاشی حالت پر کوٸی برا اثر نہیں پڑا بلکہ بہتر سے بہتر ہوتی چلی گٸی ہے۔ جہاں ان ظالموں کے آپسی معاشی جنگ کے شکار ہونے والے مقتولوں کے یتیم بچے بھوک و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں تو وہیں ان دونوں الیٹ خاندانوں شہزادوں کی عیاشیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ہم غریبوں کے ایک لاش کے گرنے پر جہاں پورے خاندان میں ماتم بچھ جاتا ہے وہیں ان دونوں خاندانوں کو ہماری لاشوں پر سیاست کرنے اور اپنے بینک بیلنس بڑھانے کا ایک اور موقع ملتا ہے۔

پہلے یہ جنگ وڈھ شہر و مضافات میں گھماٸی جارہی تھی لیکن اب اس کاروباری جنگ کو وسعت دے کر میرے آباٸی علاقہ سارونہ تک پھیلا گیا ہے۔ وڈھ بازار کے چند دکانوں سے ہوتا ہوا وڈھ کے سونے جیسے ریتی، کروماٸٹ اور اب اسے سارونہ و گڈڑو کے ماربل کے ذخاٸر تک وسعت دی گٸی ہے۔ پچھلے 20 برسوں میں سارونہ کے قیمتی ذخاٸر لوٹ کر وہاں سڑک، اسکول، ھسپتال تو نہیں دی جا سکی البتہ وڈھ کے عوام کو لاشیں بہت عنایت کی گٸی ہیں۔ پہلے مزدوروں کےلیے ناقص انتظامات، پتھروں کے نیچے دب جانا، گاڑی یا ایکسکویٹر کا نشانہ بننا مقدر تھا، اب منافع بخش جنگ کے ان دونوں کاروباری خاندانوں نے اس تقدیر کو بندوق کی گولی کا نشانہ بننے میں بدل دیا ہے۔ اس بار شہید طاہر جیسے عام مزدور انسان ایک بار پھر نشانہ بنیں گے اور دونوں خاندانوں کے مُنشی حضرات ان لاشوں کو بھی اپنی حوس و لالچ کا نشانہ بنا کر ان کی توہین و تذلیل کرکے انہیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاجات کریں گے۔

انڈر ورلڈ مافیاز کی طرح ان دونوں خاندانوں کے جنگی کاروبار کے بھی کچھ پوشیدہ بنیادی اصول ہیں اور اس پر یہ دونوں حاکم خاندان پوری طرح ایمانداری کے ساتھ قاٸم ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے خاندان کے افراد اور منظور نظر لوگوں کو کبھی زِک نہیں پہنچاٸیں گے اور دوسرا یہ کہ اس جنگ کے دوران ان کے کاروبار میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ آپ اس بات کے ثبوت کےلیے دونوں خاندانوں کے معاشی حالات کا پچھلے 20 برس کے دوران کا جاٸزہ لیں تو آپ کو تسلی ہوجاٸے گی کہ انہوں نے اس جنگ سے کتنی کماٸی کی ہے۔ اس جنگ میں جہاں غریب کے جھونپڑی میں لاش اور بھوک افلاس آیا ہے تو دوسری طرف ان دونوں خاندانوں کے بینک اکاٶنٹ میں پیسہ اور ان کے بچوں کے پاس گاڑیاں اور بنگلے آٸے ہیں۔

لہٰذا اس بار جتنا اس کاروباری جنگ کو وسعت ملی ہے اتنا ہی اس کی تباہ کاریاں غریب عوام کےلیے تباہ کن ہونگی۔ یہاں لاشیں گریں گی اور وہاں ان دونوں خاندانوں کے سرمایہ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ تو آج ضرورت اس امر کی ہے اس کاروباری جنگ سے عام عوام اپنے آپ کو دور کرے اور دونوں خاندانوں کے وحشیانہ دھندے سے کنارہ کش ہو کر اپنی خیر مناٸے۔ لہٰذا اب ان دونوں خاندانوں کے خلاف عوام کو مل کر اپنی نجات کی جنگ لڑنی ہوگی۔ اپنے آپ کو مسلسل قتل کروانے سے ان خاندانوں کو روکنا ہوگا۔ امن کے روٹھے فرشتوں کو منانا ہوگا۔ ورنہ لالچ، حرص اور دولت کے پجاری یہ دونوں خاندان ہم غریبوں کو مزید تباہ کرکے ھلاک کر ڈالیں گے۔ کیونکہ یہ دونوں خاندان بلوچ کے اصل دشمن کے کارندے ہیں جو بیک وقت مختلف لبادوں بلوچ کی نسل کشی کا منافع بخش دھندا کر رہے ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں