مقتل گاہ – افروز رند

200

مقتل گاہ

تحریر: افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

جون ایلیاء نے کہاتھا کہ ایک ہی تو حادثہ ہے آج تک بات کہی نہیں گئی اور بات سنی نہیں گئی۔ معروف دانشور وسعت اللہ خان کا کہنا ہے کہ سبین محمود کو ان لوگون نے راستے سے ہٹایا جو دلیل کے بجائے اندھی تعمیل پر یقین رکھتے ہیں۔حامد میر کا کہنا ہے کہ وہ بے صداوں کی آوازتھی وہ انسانوں کا درد رکھنے والی عورت تھی انسانی حقوق پربات کرتی تھی اسلئے اسے قتل کردیا گیا کیونکہ حق پر بات کرنا ان لوگوں کو چھبتاہے جو حق تلفی کرتے ہیں۔ ماروی سرمد نے کہا کہ اسے بلوچستان کے شورش اور وہاں ریاستی جرائم کی پردھ پاشی کی سزا دی گئی کیونکہ اس نے منع کرنے کے باوجود پروگرام کی انعقاد کیا تھا۔

بابا تالپور کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو ریاستی ادارے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جوکہ ان کی جرائم کا پردہ فاشی کریں۔ مجھے ڈیتھ تریٹ مل چکی ہے ‘ آپ یہ بات ان کی اپنی زبانی بی بی سی پر سن سکتے ہیں۔

وہ ہمیشہ اقلیتوں اور خواتیں کی حقوق پر بات کیا کرتی تھیں انہیں روشن خیال اور ترقی پسند نظریہ کی پاداش میں24اپریل 2015کو قتل کردیاگیا۔

وہ ہمیشہ ریاستی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی وہ کہتی تھی کہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے مذہبی اتہاپسندی بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کراچی میں The 2nd Floor کے نام پر ایک کیفے کی بنیاد 2007 میں رکھی۔ جہاں پر شجر ممنوعہ موضوع ‘ خاص کر اقلیتوں کے حقوق ‘ عورتوں پر ظلم اور انسانی حقوق کی سنگیں پامالیوں پر پروگرام کی انعقاد کرتی تھی۔ T2F پر لوگوں کو اپنے فن اور آرٹ کی نمائش کی اجازت دی جاتی تھی اور وہ خود اس سنہرے پروگراموں کی میزبانی کیا کرتی تھی۔

یہ 2015 کی بات ہے کہ بلوچستان کی موجودہ شورش اور انسانی حقوق کی سنگینّ مسئلے پر ایک پروفیسر صاحب نے لمز یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک پروگرام کی انعقاد کا اعلان کیاتھا، جب کہ ریاستی اسٹبلشمنٹ نے یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسر صاحب کو تنبیہہ کی تھی کہ وہ بلوچستان مسئلہ پر کسی قسم کے پروگرام سے بعض رہیں۔ جس پر انہوں نے پروگرام منسوخ کیا تھا۔ جبکہ سبین محمود نے دیدہ دلیری سے اس پروگرام کا انعقاد کراچی میں کرنے کا اعلان کیا اور 24 اپریل 2015 کو اپنے T2Fمیں فنکشن کا انعقاد کرکے خود اس کی میزبانی کی اسی پروگرام میں بلوچستان سے انسانی حقوق کے کارکن اور وائس فار مسنگ پرسن کے چیئرمیں ماما قدیر بھی شریک ہوئے۔

جب سبین محمود پروگرام ختم کرکے گھر جارھی تھی تو انہیں راستے میں گولیاں مارکر قتل کردیا گیا اس حملے میں سبین کی والدہ شدید زخمی بھی ہوئیں۔

مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں اسے ہمیشہ کیلئے خاموش کردیاگیا۔

وہ سماجی نا انصافی اور امتیازی سلوک پر بات کرنے والوں میں پہلے صف میں ہواکرتی تھی’، آج چھٹی برسی کے موقع پر سبین محمود کو خراج تحسیں پیش کریں ۔ اور وہ یہ کہ آپ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں مظالم پر بات کریں سمجھیں کہ آپ نے سبین کو خراج تحسیں پیش کی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں