مزاحمت زندگی ہے
تحریر: میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مجھے وہ بیتی ہوئی تاریخ آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے جس میں پورے بلوچستان کی گلی کوچوں اور سڑکوں میں ریلی، جلسے جلوسوں اور مظاہروں کی بھیڑیں لگی ہوئی تھیں کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے اگر آپ تاریخ میں جھانک کر دیکھ لیں اور اُسے پڑھ لیں تو آپ تاریخ سے ضرور روشناس ہونگے کیونکہ جب مظلوم کے اوپر ظلم، بربریت شروع ہوئی تو اکثریت مظلوم نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا، مظلوم قوم کے پاس مزاحمت کے علاوہ اور کچھ بھی راستہ نہیں بچتی۔
ایک شاعر خوب فرماتے ہیں
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
14اگست سے ایک دن پہلے سوشل میڈیا پرایک فوٹو وائرل ہوئی جس میں ایک افسوس ناک اور درد ناک منظر تھا جسے انسان دوست انسانیت دیکھ کر لرز جاتا ہے اور جسم پورا پسینے سے شرابور ہونے لگتا ہے اور دوسری اہم بات ہاتھ اور پاوں باندھے اور آٹھ گولیاں جسم پر چھید چھید کر اور جگہ جگہ انکے خون کے دھبے تھے اور متعدد گولیوں کے نشانات تھے اور پورا جسم چھیدا ہوا تھا۔ دوسرے پہلو میں اب مجھے ایسا لگا کہ اب وقت تھم گیا ہے کیونکہ اب ہمیں اس زمین کو پانی سے نہیں، خون سے سینچنا ہے۔
دوسرا رُخ نہ جانے میں کہاں سے شروع، جہاں پر ہر صفحہ آبدیدہ کے اس منظر پر پڑا ہوا ہے ناجانتے ہوئے میں کس طرح سے بیان کروں جس میں سسکتے بلوچستان کی ہر داستان درد سے بھری پڑی ہے اور میں کس کے نام لکھوں،جس میں یہ المیے گزر رہے ہیں میرے گاؤں اور شہر کے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں اور اس سرزمین میں ہماری عزت کو تار تار کیا جا رہا ہے کوئی اور تو نہیں، بس دل میں ایک خنجر آزمائی ہے کہ ہم ہی قتل کر رہے ہیں اور ہم ہی قتل ہو رہے ہیں۔
اس ناسور زندگی میں اگر ایک ماں باپ کے سامنے بیٹے کی لاش پڑی ہو تو اس منظر کو دیکھنا شاید انسانوں کی بس میں نہیں، اور وہ کوئی نہیں، بلکہ 25سالہ حیات بلوچ جسکے ہاتھ اور پاوں باندھ کر آٹھ گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا لیکن آرٹیکل 9 کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی آئین میں کسی بھی شہری کی عزت و مال اور جان کی حفاظت حکومت کی زمہ داری ہے مگر یہ آئین اور قانوں بلوچستان کیلئے نہیں، بلکہ پنجاب اور دیگر صوبوں کیلئے بلکہ یہ کٹھپتلی اور نام نہاد وزیراعلی اور سلیکٹڈ وزیراعظم اس سماج اور معاشرے کا نمائندہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایجنڈے کے طور پر لائے گئے ہیں۔ یہ پاکستان نہیں، بلکہ جنرلستان ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ فوجستان ہے اور کچھ اسے پنڈیستان کہتے ہیں اور اس کیجانب سے وہ اپنی ساری جمہوری نظام جس میں اپنی مدت پوری کر چکا ہے اور وہ لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ جمہوری راستہ چھوڑ کر ایک ایسا راستہ اختیار کریں جس میں واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو، اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں، لیکن ہاں البتہ قوم اب سمجھ چکی ہے کہ اس ناسور دشمن کو کس طرح سے بھُگتنا اور کس طرح سے پیش آنا چاہیئے۔
27 مارچ 1948سے لیکر آج تک یہ واضح تاریخ ہے کہ اس میں اور کوئی شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں کہ پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا اور بلوچ قوم نے پہلے دن سے کہہ چکے ہیں کہ نا صرف بلوچ قوم بلکہ پوری دنیا اس ناسور ملک سے چھٹکارہ چاہتا ہے بلکہ اس سست اور ناتواں سے چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں ایک آواز ہونا چاہیئے کیونکہ قابض فوج نے کئی گھروں کو آتش سوزاں کرکے راکھ کے ڈھیر بدل دیا ہے۔
کیا حیات بلوچ ایک دہشتگرد یا ٹارگٹ کلر تھے؟ بلکل نہیں! بلکہ انکا جرم صرف اور صرف بلوچ ہونا تھا۔ وہ بلوچ قوم کے خون کو ارزاں سمجھتے ہیں اور بلوچستان کے لوگوں کے عزت نفس کو مجروح کرنا اور انکی چادر چار دیواری کو پامال کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔