بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں لڑائی کے دوران کم از کم 22 بھارتی سکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ کئی لاپتہ ہیں۔ اس ہلاکت خیز لڑائی میں درجنوں اہلکار زخمی بھی ہو گئے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق ماؤنواز باغیوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہونے والے سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بڑھ کر بائیس تک پہنچ گئی ہے۔ چھتیس گڑھ کے نائب سربراہ وزیر تمردواج ساہو کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہفتے کے روز یہ لڑائی تین سے زیادہ گھنٹوں تک جاری رہی۔
مقامی پولیس کے مطابق انہیں خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ بیجاپور میں ماؤنواز باغیوں کا ایک اجلاس ہو رہا ہے، جس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پولیس کمانڈوز اور پیرا ملٹری فورسز پر مشتمل ٹیمیں روانہ کی گئی تھیں۔
اس آپریشن میں دو درجن سے زیادہ اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل چھتیس گڑھ پولیس او پی پال کا کہنا تھا کہ ہفتے کے روز پانچ اہلکاروں کی لاشیں ملی تھیں جبکہ دو درجن زخمی اہلکاروں کو بچا لیا گیا تھا، ”ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مزید سترہ اہلکاروں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ متعدد لاپتا سکیورٹی اہلکاروں کی تلاش جاری ہے۔‘‘
تاہم او پی پال کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ لاپتہ ہونے والے اہلکاروں کی تعداد کتنی ہے؟ جس مقام پر لڑائی ہوئی، وہاں سے دو باغیوں اور ایک خاتون کی لاش ملنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ زخمی اہلکاروں میں سے جن کی حالت تشویش ناک ہے، انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریاستی دارالحکومت رائے پور کے ہسپتال لایا گیا ہے۔
بھارت کے بائیں بازو کے گوریلا گروپ مرکزی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور انہوں نے اپنے حقوق کے لیے مسلح تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق چھتیس گڑھ ریاست ماؤنواز باغیوں کا گڑھ تصور کی جاتی ہے اور وہاں گزشتہ دو عشروں کے دوران تینتس سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں باغی، سکیورٹی اہلکار اور عام شہری شامل ہیں۔ بھارتی حکومت نے ماؤ باغیوں کو داخلی سکیورٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رکھا ہے۔ ماؤ نواز باغیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین، ملازمتوں اور غریب قبائلی گروپوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔