فلسفہ اخلاقیات – زیرک بلوچ

778

فلسفہ اخلاقیات

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر نوع انسان کی تاریخ کے اوراق کو دیکھیں تو انسانی شعور کا ارتقاء ہی اسی سوال پہ بحث کرتے ہوئے ملے گا زندگی کیا ہے ؟ زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟ اچھا اور مثالی زندگی کیا ہے ؟ ایسے سوالات جو انسان کے ذات سے اسکے اردگرد موجود ہر شئے پر منحصر تھے، جس نے انسانی زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھلنے اور ارتقائی مراحل طے کرنے میں کبھی آسانی تو کبھی مشکلات بھی پیدا کئے۔ جب انسان اجتماعی زندگی کا عادی ہونے لگا تو سب سے اہم سوال جو وقتی طور پر اہمیت کا حامل تھا وہ یہ تھا کہ اجتماعی زندگی کو کیسے گزارا جائے، کونسے اعمال سے دوسرے نقصان نہیں بلکہ فائدہ، خوشی ملے۔ غار کے زمانے سے لے کر آج کے جدید دور میں بھی اخلاقیات کا سوال موجود ہے۔

اخلاقیات کا تعلق انسان سے کیونکر اتنا جڑا ہوا ہے آخر وہ کونسے عوامل ہیں، جس نے انسانی تاریخ میں اخلاقیات کے سوال کو کبھی مرنے نہیں دیا تو ان عوامل کے فلسفیانہ وجوہات جاننے کے لئے ہمیں انسانی تاریخ میں خود کو ماضی کے حسین مزاروں میں جہاں انسان زندگی کی رازوں کو افشاں کرنے کے لئے محو خیال میں غرق ملیں گا وہاں اخلاقیات کا سوال جدلیات کے شکل میں ملے گا اور یہ بحث کہ اگر ایسا کیا جائے تو کیسا ہوگا۔ اگر یہ خوشی ہے تو جو میں کرتا تھا وہ کیسے خوشی ہوگی ؟ انسان کی زندگی سے ہم کبھی اخلاقی سوال کو اخلاقیات کو جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ قدیم میتھالوجی (mythology) میں ہمیں خداؤں کا کردار بھی اخلاقی بنیاد پر ملے گا جہاں ایک اچھائی کا خدا موجود ہوگا وہیں ایک برائی کا خدا جو غصہ طیش میں آکر ناراض ہوا کرے گا، اسی طرح کلچر میتھس میں اپنے تہذیب و تمدن سے وابستہ چیزیں ملیں گی، جس کی بنیاد پر ethical cultural کی بنیاد ہے۔ چند ایک مورخین کا کہنا ہے کہ اخلاقیات کا سوال درحقیقت مذہبی سوال ہے اخلاقیات کا تعلق انسان کی اپنی ذات پہ منحصر ہے کہ وہ کیا کرنا پسند کریں گے کیا نہیں ، انفرادی آزادی کا تصور جو فرانسسی فلاسفر روسو نے اپنی کتاب social contract میں پیش کیا تھا جہاں روسو کا انسان آزاد منش ہوگا سماجی، اخلاقی، مزہبی و سیاسی بندھنوں سے دور ایک آزاد فضا میں اڑتا ہوا انسان۔

ویسے تو فلسفیانہ اخلاقیات کی جڑیں تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے، لیکن اس کا آغاز کنفیوشیس سے مان بھی لیا جائے تو پھر اس کے بعد عظیم فلسفی سقراط نے جو اخلاقی بنیادوں پر انسانی افعال کی “ذمہ داری” اور ان کے ساتھ دیگر انسانی اقدار کا جو فلسفہ عقل کی بنیاد پر پیش کیا وہ انسان کی مرکزیت کے تصور پر قائم تھا، یعنی انسانی عقل انصاف، مساوات، ہمدردی، نیکی وغیرہ جیسی اقدار کا تعین کیسے کرتی ہے۔ اس کی باکمال وضاحت افلاطون کی کتاب “ریپبلک” میں ملتی ہے۔ تاہم نیکی کیا ہے؟ کیسے ہے؟ وہ خود سے شروع ہو کر خود میں ختم ہوتی ہے، جس کا آغاز و انتہا خود انسان ہے، نہ کہ کسی دیوتا کا دیا ہوا لاچ! نیکی اور خوشی و مسرت کے درمیان کیا تعلق ہے؟ نیکی کی بنیاد “سچ” پر ہوتی ہے، اور “سچ” کیسے انسانی خواہش اور دیگر انسانوں سے ربط میں آکر سچ بنتا ہے؟ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ “ذمہ داری” کا مطلب کیا ہے؟ ان سب اہم سوالات کا جواب عظیم ارسطو کی اس اخلاقیات میں موجود سائنسی و فلسفیانہ بنیاد پر دینے کی کوشش کی ہے۔

اگر ھم اسی وجوہ کو آگے لے کر جائیں کہ کیا واقعی اخلاقیات کا سوال درحقیقت مذہبی سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں اگر ھم اسی جملے کو زرا یوں دیکھنے کی کوشش کریں کہ مزہب کا سوال درحقیقت اخلاقیات کا سوال ہے تو کچھ بحث و مباحثے کے راستے ضرور ہموار ہونگے کیونکہ دونوں کا تعلق بلواسطہ یا واسطے انسانی زندگی سے ہی ہے دونوں کا تعلق انسان سوال سے ہے کہ اچھی زندگی مثالی زندگی دنیاوی و یا آسمانی مگر ہے انسان کو سوال۔ دوسری جانب اخلاقیات کا سوال ہمیں انسانی تاریخ میں مزہب کو چیلنچ رکھتے ہوئے بھی ملیگا جب ھم جدید فلسفہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو چرچ و ریاست کے خلاف جن جن سوالات نے جنم لیا ان تمام کا تعلق انسانی زندگی سے تھا ناکہ مذہب سے ، انک تعلق ریاست کی مشینری سے تھا جس کا تعلق انسانی زندگی سے تھا۔

مختلف ادوار میں اخلاقیات کا سوال ہمیشہ کسی نا کسی شکل میں ابھرا ضرور ہے جیسے کہ ارسطو کی کتاب سیاسیات میں (1) سیاست کرنے والا ایک اخلاقی شخص ہے (2) انسانی فیملی کی بنیاد و بچوں کی تربیت ایک اچھے انسان کی طرح ہونا چاہئے جہاں ارسطو فیملی کو ریاست کی اکائی گردانتا ہے ،اچھے شہری یعنی وہ شخص جو اخلاقی حوالے سے مضبوط ہو (3) ہر ایک شہری کو اخلاقیات کا درس دیا جائے، ان چند نقاط سے ھم اس بات کو جاننے و سمجھنے کی کوشش کریں تو قبل از مسیح زمانے میں بھی سماج و قوم کے لیے ایک اچھے انسان بنانے کی تگ و جاری ملے گی وہی ارسطو کا Nicomachean Ethics زیر بحث آتا ہے ارسطو کے نزدیک اچھی و مثالی زندگی کا راستہ virtue جو اچھائی کی ایک مکمل و جامع شکل ہے سے ہی ممکن ہے۔

‏virtue کے بغیر ھم اچھی زندگی یا اچھا انسان نہیں بن سکتے۔ بلکل اسی طرح اگر ھم افلاطون کے اخلاقیات کا مثال لیں جہاں ہمیں آئیڈیل فارم آف ورلڈ۔ Ideal form of world میں بس ایک اچھا انسان ملے گا تو باطنی طور پر اچھا ہے جس کی بنیاد ہی اچھائی ہے وہیں وہ دوسری جانب جب بیرونی دنیا میں برائی میں مبتلا ملے گا غرض انسان کے زندگی، سماج و سیاست سے اخلاقیات کو کسی بھی شرط پہ علیحدہ نہیں کرسکتے اور نا ہی ممکن ہے عیسیٰ مسیح کی تمام تر تعلیمات کا تعلق اخلاقیات سے تھا جہاں وہ یہ درس دیتے ہوئے ملیں گے کہ اچھا کرو اچھا سوچو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جہاں اچھائی کا تعلق عیسیٰ مسیح کے پاس بس تمھارے اعمال سے اندرونی و بیرونی دونوں اور توریت کا بیشتر بیان اخلاقیات پہ مبنی ملے گا بلکل اسی طرح اسلام کو دیکھے حضرت محمد اپنے لوگوں سے اچھائی کی امید باندھے ہوئے وہیں قرآن میں بھی یہی ملے گا کہ اچھا کرو تمھارے ساتھ ضرور اچھا ہوگا ۔

اخلاقیات کا تعلق انسان سے ہے خواہ وہ ہمیں کسی بھی مقام پہ بندھا ہوا ملے ، چاہے وہ سیاست ہو سماج ہو یا گھر ہر ایک مقام پہ ہم اخلاقی حدودوں کا تعین کرکے کی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر اخلاقیات کو ایک جانب رکھ کر ھم عمل کرنے کی کوشش کریں تو اس بات میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ وہ کام بس اپنے لئے ہوگا نہ کہ سماجی و سیاسی اچھائی کے لئے جس کا تعلق مستقبل سے ہے۔ مغربی سیاسی تاریخ میں اخلاقیات ہی وہ ہتھیار ہے جو انسانی بقاہ کی خاطر چرچ و ریاست سے الجھا ہوا ملے گا انسانی سماج کی ازسرنو تعمیر کی لئے اخلاقی فلسفیانہ فکر ملیں گے۔

انسانی سماج کو اگر ھم باریک نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں تو سماج کی اکائی اخلاقیات سے باہر نہیں ہوگا جہاں ایک دوسرے سے رہنے اور ایک دوسرے کو سہنے کی خاطر کلچرل میتھس، قومی شعور ملے گا جس کی بنیاد ہمیں اسی قوم کی تاریخ اقدام یعنی national consciousness and myths کی شکل میں ملے گا جس کی بنیاد پر سماجی سچائی و سماج کا اچھا انسانی ضروریات ہونگی۔ جو ایک نئے سماجی رکن سے اسی اچھائی کی امید لگائے ہوگا مثال کسی بھی قوم یا سماج کا کسی بھی فرد سے ایسا کوئی امید بندھا ہوا نہیں ملے گا جس کی بنیاد بداعمالیوں پر ہو ہر ایک قوم و سماج اپنے افراد سے اچھے کی توقع رکھتا ہے ۔ سماجی حیوان سماج کی خاطر اپنے فکر و فلسفہ کی زریعے چیزوں میں نیا پن یا ترقی کے منازل طے کرنی کی خاطر ان زمینی حقائق کو مند نظر رکھ کر ہی قدم اٹھاتا ہے بلکل اجتماعی زندگی میں ھم اچھے ہونے اور کرنے کی خاطر زندگی کو نئے معنی کی تگ ودو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اچھائی، خوشی، جمالیات و اخلاقیات کے سوال کو اگر ھم عقل کے دائرے میں پرکھنے کی کوشش کریں تو ھمیں ان سوالات کے جوابات زمینی حقائق و وہاں کی کلچرل کے مطابق ملیں گے جیسے کہ افریقہ میں جس خدو خال کے خاتون کو خوبصورت مانا جاتا ہے اسے ایشیائی ممالک میں ھم خوبصورتی نہیں کہتے اب ہہاں افریقی خوبصورتی کو ھم بدصورتی کے زمرے میں نہیں لا سکتے کیونکہ اس بات کا تعین وہاں کی تہذیبی و تمدنی سچائی نے کیا ہے جس کے پیچھے ایک مضبوط machinism کار فرما ہے۔ آج کے گلوبل دور میں جہاں ہمیں مغربی قوتوں کی جانب سے حسیاتی تبدیلی مسلط کی جارہی ہیں، تو یہ عمل یقیناً نہ صرف قومی شعور کو بلکہ سماجی و تہذیبی تمدنوں کے لئے بھی خطرہ ہے کیونکہ مغرب (west) کی سچائی ہماری نہیں ہوسکتی ہے ہمارے اچھے اور اخلاقی ہونے کا فیصلہ ہمارے زمینی حقائق کلچرل میتھس و قومی شعور کریں گی کیونکہ یہ وہ عوامل ہے جو ایک قوم کو ایک سماج کو بنانے میں اولیں و ضروری ہیں۔

اخلاقیات کا سوال آج بھی جوں کا توں موجود ہے یا یوں کہہ دو جب تک اس کرہ ارض پہ بنی نوع موجود ہے اخلاقیات کا سوال موجود ہوتا اور انہی زمینی حقائق کی بنیاد پر ابھرتا رہے گا آج گلوبلائزیشن کے دور میں جہاں ھم پہ ہر ایک چیز مسلط کی جاتی ہے انہیں اپنے تاریخی گوشوں میں دیکھنے و سمجھنے کی ضرورت ہے کلچرل میتھس و قومی شعور کو پڑھنے اور اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے جہاں سماجی و قومی سوال کا تعلق ہر وقت اسی زمین سے ہو جہاں ھم ارتقائی مراحل طے کرکے پہنچے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں