طالب علم سہیل بلوچ و فیصل بلوچ کی عدم بازیابی، بلوچ کونسلز کی مذمت، کمپئین کا اعلان

377

گذشتہ دنوں کیچ کے مرکزی شہر تربت سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف طلبہ تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔

حراست بعد لاپتہ ہونے والے سہیل احمد ولد رفیق احمد یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں بیچلرز کے فائنل سیمسٹر کے طالب علم ہے جبکہ فیصل بلوچ تربت یونیورسٹی میں بی ایڈ کے طالب علم ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لاہور نے کیچ سے لاپتہ طالب علموں کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا ظہار کرتے ہوئے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی بلوچ قوم پر جبر کی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا تسلسل ہے۔

طالب عملوں کی آئے روز گمشدگی سے طلباء کے اندر ایک غیر یقینی کیفیت نے جنم لیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ طالب علموں کی گمشدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی طالب علموں کی جبری گمشدگی کے واقعات رونماء ہوئے ہیں، اس جیسے اقدامات کا واضح مقصد بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طالب علموں کو سہولیات دیں انہیں تعلیمی مواقع عطا کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے مواقع دیں لیکن افسوس کے ساتھ سہولیات کے بجائے ریاست انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش میں ہے جس سے مستقبل میں سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ خاندانی ذرائع کے مطابق سہیل احمد اور فیصل بلوچ کو 31 مارچ کو ضلع کیچ کے علاقے شارگ سے اس وقت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب وہ گھر سے شکار کیلئے نکلے تھے۔

نوجوان طالب علموں کی جبری گمشدگی پر بلوچ سٹوڈنٹس کونسل رحیم یار خان کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تربت سے بلوچ طالب علموں کو لاپتہ کرنا ایک افسوسناک عمل ہے۔ بلوچ طلباء کو لاپتہ کرنے کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ پچھلے دو دہائیوں سے جاری ہے۔ آئے دن بلوچ طالب علموں کو لا پتہ کرنے سے بلوچ طلباء کے اندر ایک خوف کی فضاء جنم لے رہا ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ طلباء نے پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا لیکن گذشتہ چند سالوں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بلوچ ظلباء کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ بلوچ طلباء کو لاپتہ کرنے کا مقصد انہیں تعلیم سے دور رکھنا ہے۔

بلوچ ایجوکیشنل کونسل بہاولپور کے ترجمان نے اپنے جاری کر دہ بیان میں کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں ایک سگین صورتحال اختیار کر چکا ہے آئے روز کسی نہ کسی بلوچ کو اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے ایک طویل عرصے سے بلوچ طلباء کا بھی اسی طرح جبری طور پر لاپتہ کرنا کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی پہلہ واقعہ نہیں جب بلوچ طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے اس سے پہلے بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ طلباءء کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے بلوچ طلباء کو اس طرح سے جبری طور لاپتہ کرنا انہیں تعلیم سے دور رکھنے کے مترادف ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سہیل احمد اور فیصل بلوچ کی باحفاظت بازیابی کیلئے بلوچ اسٹوڈنس کونسل لاہور کی جانب 20 اپریل شام 7 سے لے کر 11 بجے تک ٹوئٹر پر کیمپین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس میں انہوں نے تمام طلبا تنظیموں سیاسی و سماجی تنظیموں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے شرکت کی اپیل کی ہے۔

جبکہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور اور رحیم یار خان نے بلوچ کونسل لاہور چیپٹر کے ٹؤئٹر کمپئین کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے تمام طلباء، تنظیموں انسانی حقوق کے تنظیموں، علم دوست اور انسان دوست حلقوں سے درخواست کی ہے کہ وہ فیصل اور سہیل بلوچ کے بازیابی کے لئے آواز اٹھا کر ان کے بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔