صحافتی اقدار اور جبری ماحول – اکبرعاجز

162

صحافتی اقدار اور جبری ماحول

تحریر: اکبرعاجز

دی بلوچستان پوسٹ

صحافی یا صحافت ایسا ہی ہے جیسے روز کی ڈائری لکھنا اردگرد کے حالات و واقعات سے عالمی منظر نامے کی تشریح کرنا انفرادی خیالات سے سماج کے اجتماعی سوچ کی عکاسی کرنا مسائل کی نشاندہی میں تدبر کی آراء شامل کرنا اور سب سے بڑھ کر ظلم، لوٹ مار ، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنا اصولی قوائد بن جاتے ہیں احساسات کی بھٹی میں افکار کے کندن بن جانے والے انسانی سماج کی آزادی میں خود ضمیر کے قیدی بن جاتے ہیں گھپ گھٹا اندھیروں میں لہو دوات سے چراغ قلم روشن کرتے ہوئے ظلم کے محرکات کو عیاں کرتے جاتے ہیں، جو اس جہد کار کو مقدس پیشے کے خطاب سے جوڑ جاتی ہے غرض کہ ایک عوامی ڈائری کی روز تکمیل کرنا ہوتا ہے جسکے معاشرے پر اثرات و تاثرات لوازمات کردار پر محیط ہوتے ہیں۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بظاہر خبر رسانی کے ذرائع ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ لمیٹڈ کمپنیز کی طرح ہی کام کرتے ہیں جہاں منافع بنیادی اصول بن جائے، وہاں سچ کبھی مکمل نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات جھوٹ خوشامدی کی صورت میں یا بلیک میلنگ ٹاپ خبر کی چھاپ بن کر چھائی رہتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ شہنشاہوں کے ظلم و ستم کو انصاف کے پردے پر مزین کرنے والے درباری لکھاری روز نامہ کے اندراج میں چند سکوں سے وقت و صلاحیت وقف کردیتے ہیں۔

خبر اپنے معنوں سے زیادہ زر بہاء ہوجائے وہاں تجارتی مفادات اولین ترجیحات بن جاتے ہیں جہاں عوامی سوچ و بچار سے زیادہ شخصیات کے اتار چڑھاؤ بخار جیسی کیفیت پیدا کرجاتی ہے۔ یوں علمی، مذہبی اور سائنسی نظریات کی پرچار ایک ثانوی حیثیت بن جاتی ہے جس میں پسند و ناپسند ریکنگ مخصوص طرز کے پرچار سبقت بازی کی سر پٹ دوڑ شامل ہوجاتی ہے، جو نت نئی رواجوں میں سپنوں کی پر کشش عکاسی کا موجد بن جاتے ہیں یہی وجہ کہ ایک عام ذہنی خیالات کے رخ کو ہوا کی دوش پر گھمانے والے اعتباری دولت سے عاری ہوتے جارہے ہیں جبکہ برق رفتار جدت ضرورت انتہاء کو نئی راہوں نئے آئیڈیاز کے فارمولے سے آشکار کررہی ہے، ارتقائے سماج نئے دور کے اپنے معروضی حالات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے جہاں زندگی کے زوال کی طرح مافیاز کے معبد خانے کی بتوں کا غرور وقت کے معیاری تبدیلی کے پے در پے آنے والی زلزلوں سے دراڑوں کے نشانات میں بدل چکے ہیں۔ معاشرے میں ناہمواری سطح کے طبقاتی فرق کی لہر صحافیانہ مزاج کو بھی اپنی لپیٹ میں بری طرح جکڑ چکا ہے سینیئر اور جونیئر کی اصطلاح علم و زانت سے زیادہ برانڈ ( ادارے ) کی وابستگی اور مقام ریلیشن کے درجہ بندی پر فائز ہوچکی ہے لیکن ہر عہد اپنے اندر عروج و زوال کی داستانیں بیان کر کے گزر جاتی ہے، جنھیں شہنشائے وقت کی بے رحم موجیں انصاف کی ان دھاروں پر بہاء لے جاتی ہیں کہ جہاں وقت کا انصاف خاموش وادی کے پرسکون بہتے پانی کی شفافیت سے نظر آنے لگتی ہیں۔

جدید ذرائع ابلاغ مخصوصیت کے دسترس سے بڑی رفتار میں آگے نکل کر نئے ادوار کو تو اپناتی جارہی ہے لیکن آج بھی حاکمی طاقت ماضی کے شہنشہانہ طرز سوچ کو برقرار رکھتے ہوئے لبوں کو سینے اور کانوں کو بہرے پن کی مشق میں برق رفتار قوت کو آزمارہی ہے اظہار رائے آزادی کے الفاظ خصوصاََ تیسری دنیا اور اور اس ترقی پذیر خطے میں جہاں ہم آباد ہیں قانونی ڈکشنری میں تو بہت اعلیٰ معنوں میں درج ہے لیکن حقیقت کہیں کوسوں جہاں دور ہے سوچوں پر پہرادار بٹھانا ممکن نہیں لیکن خوف و دہشت کی علامت کا اظہار سرکار اور سماج کے مختلف قوتوں کے قلعوں سے اکثر و بیشتر شاہی فرمان کی طرح جاری ہوتے ہیں کہیں مذہبی کارڈ استعمال ہوتی ہے کہیں سرکار کی سرکاری مشینری حرکت میں آجاتی ہے اور یہاں سب سے دلچسپ ایک عجیب پہلو کی تشبی تو وہاں انتہاء کرجاتی ہے کہ کہنے کو جب بنیادی حقوقِ کی آزادی لڑنے والے اختلافی دلائل کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ مان کر تشدد کی راہ کو اپنانا اپنا فرض اعلیٰ سمجھ نے لگتی ہیں۔

صحافی معاشرے کے ترجمان ہوتے ہیں یہ سماج کا وہ آئینہ ہے جو جتنا شفاف رہے اتنی سچائی نکھر جاتی ہے ذاتی مفادات اکثر اس آئینے کو دھندلا کردیتی ہے اور دھندلے آئینے میں دکھنے والی عکس کبھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی گوکہ پیشہ وارانہ صحافت اتنی آزاد نہیں رہی کہ وہ ہر نظر آنے والی منظر کو اپنی تیکنیکی اور تخلیقی صلاحیتوں میں محفوظ کرکے عام رسائی دے سکیں، اخلاقی اخلاص کی حد بندی تو انتہائی ضروری ہے لیکن دیگر اختلافی دباّؤ کو برداشت کرنا ایک بڑا کٹھن اور تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں جسکو سہہ جانا خود ایک سچے صحافی کے لئے زہر کا پیالہ پی جانے کے مترادف ہوتی ہے سچ لکھنا اور چھاپنا اتنا آسان نہیں یا بول کر سب کچھ دکھانے کی جستجو مشق اکثر و بیشتر طاقتوں کی من مانی کے آگے پیروں میں آتشی زنجیر بن جاتی ہیں لیکن جہاں سماج اور انسانیت کے لئے جھلستے روح ہو درد دل کے ارمان انصاف کے متوالی ہو کردار عمل ضمیر کے آنچوں پر کندن بن جائے وہاں لٹکتی تلوار گردن تو اڑا سکتی ہے جھکا نہیں سکتی، ہر دور سے قربانیوں کی داستانیں ہزاروں رہی ہیں ہر نگر ہر گلی شہر شہر گاؤں گاؤں ایسے پاکیزہ خون کی مہک سے معطر ہے کہ جیسے مخلوق اعلیٰ کے سرخ خلیے قطرہ قطرہ ارض کی آبیاری کرتے ہوئے انسانیت کی عظمت کو سدا بلندی پر لے جاتے رہے ہیں۔

ریاست کہنے کو ماں کا درجہ رکھتی ہے لیکن اکثر تجربات احوال ناانصافیوں کے انگشت کہانیاں سمیٹی ہر گزرتے لمحے کی واقعات سے پر ہوتی رہی ہیں گو کہ لفظوں کی ادائے بیان کی پرچار جس مقام پر سر ہے ابھرتی سوچوں سے سیکھنے سکھانے کی چلتی کارواں اس سفر مشعل کی مرہون منت ہے جس کی جلتی روشنی میں لہو کے دیئے جلتے رہے ہیں اس روئے زمین پر کائنات کی فطرت وہ وقت ہی ہے جسے کوئی طاقت کوئی علم ایک لمحے کی لمحہ بھی روک نہیں سکتی (سوائے اس تخلیق کار کے ) جو کل دندناتے تھے وہ آج منوں مٹی تلے دب گئے جن کی زبان سے ادا کئے گئے ہر لفظ دستور بن جاتے وہ تاریخ کے اوراقوں میں گمنام ہوگئے وقت جو سب سے بڑا حاکم ہے جسکے انصاف کی بیباکی میں کسی روح ریا کا کوئی تصور نہیں جو ہر ظالم کو اپنے پیروں تلے روند کر نشان عبرت بنا دیتی ہے۔

گفتاراور عمل کا تضاد دو فرد کے درمیان متوازن نہ ہو تو اعتبار ختم کرجاتی ہے کسی بھی ریاست اور عوام کے درمیان حاکم وقت پل کی مانند ہوتی ہیں اور اس پل کی مضبوطی ان پلروں پر محیط ہوتی ہے جو دراصل اس کے آئین و قوانین ہوتے ہیں اور ہر اس قائم و دائم پل کی برقرار ی کے ایسے ضامن ہیں کہ ان بنائے گئے قوائد و ضوابط کی نظر میں ایک عام فقیر سے رئیس الحکمران تک یکسانیت میں ایک روئی کے گالوں برابر بھی فرق نہ رہے اور عدل کے ترازو میں انصاف کی سوئی کا میزان درمیان کے درمیان میں رہے اگر حکمران طبقہ اپنے گفتار اور عمل میں متضاد رویئے کی روایتیں بن جائے تو مثالی حکومتوں اور مستحکم ریاستوں کی باتیں ڈونگی اور شیخی گاڑنے کے سواء کچھ نہیں ہوتی ہر گزرتے وقت کے ساتھ ارتقائے سماج میں انسانی تقاضوں سے ہم آہنگ قوانین کی بہتری معاشی برابری کے مواقعوں سے مزین کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جیسے پل کے پلروں کی مرمت اسکی معیاد بڑھادیتی ہے اگر پلر کمزور ہوگئے تو پل سفر کے لائق نہیں رہتا اور نیا پل پھر ایک نئے عہد کی طرح معیاری تبدیلی کی صورت اپنا لیتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں