شاہی دربار سے اٹھتی طبقاتی لہر کی تپش – واحد صمیم

160

شاہی دربار سے اٹھتی طبقاتی لہر کی تپش

تحریر: واحد صمیم

دی بلوچستان پوسٹ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری اداروں میں اعلیٰ بیوروکریسی سے ایک چپڑاسی تک کرپشن کی لت کے قصے عوام میں زبان زد عام ہیں، اول تو تقریباً اس نظام میں جتنی بھی سرکاری پوسٹیں اناؤنس ہوتی ہیں انکی بھرتیاں سیاسی اقرابا پروری سفارش اور نظرانے کے عوض بک جاتی ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک عمارت کی تعمیر میں اسکے بنیادی اسٹرکچر میں ہر اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے اور پھر چاہے جتنی بھی بلند اسکی تعمیر کی جائے اسکی پائیداری دھول بلکہ اسکے منہدم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور کسی بھی وقت ڈھیر ہونا ایک یقینی امر ہے ظاہر ہیکہ جہاں نظام کی شفافیت برقرار نہ رہے وہاں پھر یہی کلچر ایک نفسیات بن جاتی ہے ، جو آگے چل کر رشوت ستانی کے دلدل سفارشی ماحول کو پروان چڑھانے کا ایک بنیادی سبب بن جاتا ہے۔ پھر ایک اعلیٰ کرسی پر براجمان افسر شاہی کے چار دیواری سے لیکر دروازے پر کھڑے ہونے والے چپڑاسی کا رویہ خود انصاف کی دھجیاں بکھیر دینے کا سبب بن جاتا ہے، درحقیقت سماج میں رائج نظامِ اوقات زندگی کے ہر شعبے میں اپنے اظہارِ بیان کی چھاپ کو کسی نہ کسی شکل میں ظاہر کرتی ہے گو کہ آج پورے ملک کی طرح بلوچستان میں بھی تمام نچلی سطح کے اداروں کے ملازمین اپنے بنیادی حقوق کے لیے پچھلے کئی دنوں سے سراپا احتجاج ہیں، آج کے معروضی حالات نے محنت کش طبقے کو اپنے ملازمت کے تحفظ اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس طوفان نے یکجا ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

حالانکہ ایک وقت ایسا تھا کہ برسرِ روزگار سرکاری ملازم خود کو شاہی دربار کے خصوصی معاون تصور کرتے تھے اور سماج کے دیگر شعبوں میں محنت مزدوری کرنے والوں کو خود سے کمتر سمجھ کر شاہی نظام کے خودسرپیروکار بنے ہوئے تھے لیکن آج سرکار سردار جاگیردار اور اقتدار اشرافیہ کے بوٹوں تلے نخروں میں اس حد تک کچلے جارہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مست ہاتھیوں کے درمیان فٹبال بنے ہوئے ہیں جو ان کی بنیادی انسانی حقوق ہیں وہ عام عوام کی طرح بد سے بدتر حالات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

مگر حالات کی سنگینی اور نزاکت اپنا ہی رنگ دکھاتی ہے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سارے موجودہ منظر نامے نے جہاں معاشرے کے ایک اہم طبقے کو اتحاد واتفاق کی راہ دکھلائی ہے کہ جس کی وجہ سے جائز حقوق کے لئے یہ سارا طبل میدان جنگ سجا ہوا ہے ، وہیں یہ ڈیوٹی سے غافل اور اپنے حرص وہوس میں عوام کے ساتھ شاہی درباری والا سلوک روا رکھنے کا اعتراف جرم بھی کہیں انکے ماضی کو جھنجھوڑ رہا ہوگا، آج ان سرکاری اداروں کے ملازمین کا خود کو محنت کش طبقے کا احساس ہونا ایک بڑی تبدیلی ہے ، دیر یا بدیر اقتدار اشرافیہ کے لوٹ مار اور عیاشیوں کے بوجھ تلے مہنگائی میں پستے عام عوام کی طرح انھیں بھی پسنا تھا ، بہرحال یہ تحریکیں نہ نقطہ آغاز ہیں نہ نقطہ انجام بلکہ یہی حالات مزید ڈراؤنے انداز میں بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دسترس سے اس ابھرتے اتحاد کو عام عوام اور نجی ادارے کے ورکروں سے لیکر عام مزدوروں تک کو ایک منظم تحریک کی لپیٹ کی آغوش میں لےجائے گی، جو بنیادی انسانی حقوق کے لئے طبقاتی بنیادوں پر نہ صرف عوام کو یکمشت کرے گی بلکہ آگے چل کر نقارہ حق کی گونج بن کر کسی منصفانہ مستقل حل کے لئے شاہانہ محلات کو لرزاں ابدام کردے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔