سبین محمود کا قتل بلوچستان پر بولنے والی آواز کو خاموش کرنا تھا – ماما قدیر بلوچ

304

سبین محمود کی شہادت بلوچستان پر خاموشی توڑنے والی آواز کو خاموش کرنی تھی، سرگرم ترقی پسند سماجی کارکن سبین محمود نے لاہور میں ادھورے رہ جانیوالے کام کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کراچی میں روشن فکر سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کیلئے وقف اپنے مرکز میں بلوچستان پر خاموشی توڑنے کیلئے ایک بحث مباحثہ کا اہتمام کیا۔

ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں کیا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4294 دن مکمل ہوگئے۔

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ پروگرام کے پہلے حصے میں سوال و جواب کا سیشن چلا، سبین محمود اپنی اس کاوش پر کافی خوش تھی کہ وہ پروگرام جو لاہور میں نہ کیا جاسکا اسے وہ کرنے میں کامیاب رہی۔

ماما قدیر نے کہا کہ شہید سبین نے ڈرانے دھمکانے کے باوجود بلوچستان پر خاموشی توڑنے کی جرات کی جس کو جرم قرار دیتے ہوئے انہیں قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سبین محمود کو مسلسل دھمکیاں دی جارہی تھی جس پر انہیں احتیاط کرنے کا کہا گیا مگر سبین یہی جواب دیتی کہ کسی کو تو لڑنا ہے۔ وہ جانی تھی کہ وہ ایک ایسا فریضہ ادا کرنے جارہی ہے جس کی سزا موت مقرر کی گے مگر سبین محمود نے خود کو ہر وقت اپنے ترقی پسند انقلابی نظریے اور ضمیر کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوئے ایک دفعہ مر کر تاریخ میں باوقار طور پر ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے کا راستہ اختیا کیا۔

دریں اثناء ماما قدیر بلوچ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ کل بروز سوموار کوئٹہ میں ہوشاپ واقعے کیخلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی شال کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا جس میں وی بی ایم پی شرکت کریگی۔

ماما قدیر نے کہا کہ ہوشاپ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، اس سے قبل بھی بلوچستان میں فورسز اہلکار امیر مراد کی طرح بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے رہے ہیں جس کا اظہار ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ کل ہونے والے احتجاج میں بھر پور شرکت کرکے اس واقعے کیخلاف اپنے نفرت کا اظہار کریں۔