سائیں جی ایم سید کا قومی فکر ہی سندھ کی آزادی کا ضامن ہے – ایس آر اے

608

سائیں جی ایم سید کا قومی فکر ہی مادرِ وطن سندھ اور سندھی قوم کی آزادی، خوشحالی اور روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ جس پر بغیر کسی خوف اور لالچ کے پوری سچائی اور ایمانداری سے مزاحمتی جدوجہد کر کے اپنی منزل کی حاصلات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے – ایس آر اے

سندھودیش روولیوشنری آرمی (ایس آر اے) کے ترجمان سوڈھو سندھی نے سائیں جی ایم سید کی 26 ویں برسی کے موقع پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘مادرِ وطن سندھ اور سندھی قوم آج جن حالات سے گذر رہے ہیں وہ سندھ کے قومی وجود اور تشخص کی بقاء کے لئے انتہائی نازک اور خطرناک ہیں۔ ایک طرف پنجاب سامراج اپنی ساری فوجی طاقت کے ذریعے سندھ پر اپنا سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور جغرافیائی قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے تو دوسری جانب چائنہ سے مل کر سی پیک جیسے منصوبوں کی صورت میں سندھ کے سمندر، بندگارہوں، شاہراہوں، جزیروں اور توانائی کے سب ذرائع کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آج کے حالات بلکل سائیں جی ایم سید کی آخری تقریر کے ان الفاظ کی عکاسی کرتے ہیں کہ ‘اگر آپ سندھ پر آنے والے خطرات اور طوفانوں کو اپنے ادراک اور احساس کے ساتھ اپنی دل میں اس طرح محسوس کریں جس طرح میں محسوس کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں تو آپ ضرور کامیاب اور کامران ہو جائیں گے ورنہ غافل، کاہل اور لالچی قوموں اور افراد کا انجام تاریخ کے صفحات میں عبرتناک ہوتا ہے۔’

بیان مزید کہا گیا ہے کہ سائیں جی ایم سید کے اُس دور اندیشی والے آخری خطبے کی طرح آج مادرِ وطن سندھ پر وہ ہی خطرات اور طوفان منڈلا رہے ہیں ۔ ہماری سرزمین ہمارے پاؤں تلے نکلتی جارہی ہے اور ہم اپنے ہی وطن میں بے وطن اور اقلیت میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی غلامی کی اِس بدترین صورتحال سے نکلنے کے لئے ہمیں بحیثیت ایک قوم متحد و منظم ہوکر پنجاب سامراج اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنی ہوگی۔ تب جا کر اپنے وطن، جغرافیہ، زبان ، سمندر، دریاء اور وسائل کو بچا سکتے ہیں۔ اگر آج بھی ہم لاتعلق، غافل اور سست ہو کر خوف اور لالچ کا شکار بنتے رہے تو ہم اپنا وطن اور قومی وجود کھو بیٹھیں گے۔

مزید کہا گیا ہے کہ سائیں جی ایم سید کی برسی کے موقع پر ایس آر اے مادرِ وطن سندھ، سندھی قوم اور سید کے فکر کو اول آخر سمجھتے ہوئے ایک بار پھر سندھی قوم باالخصوص سندھی نوجوانوں کو قومی فکر، مزاحمت اور ایس آر اے کا ساتھ دینے کی دعوت دیتی ہے اور اپنی مزاحمتی جدوجہد کو تیز کرنے کا عزم دہراتی ہے۔