’’زندگی کے جنگل میں سؤروں کا غوغا‘‘، اور ہماری بے حسی – سچاپ بلوچ

240

“زندگی کے جنگل میں سؤروں کا غوغا”،اور ہماری بے حسی

تحریر: سچاپ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظالم اور مظلوم کے تعلقات ،میل جول،روابط پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں اور لاکھوں صفحات سیاہ ہوچکے ہیں۔ کالونیلزم اور پوسٹ کالونیلزم سمیت سینکڑوں آئیڈیالوجیز آئیں ہے۔ مارکسیوں نے اپنی نظریاتی عینک لگا کر ظالم اور مظلوم کو پرکھا،لبرلز نے اپنی عینک سے ایک عینک مظلوم کے پاس بھی ہے جس پر ظالم کے خیالات کی دھول جمی ہے اور مظلوم صاف طور پر چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا جس کی وجہ سے اس کے اقدامات و اہتمامات بھی اکثر و بیشتر ادھورے اور خام ہوتے ہیں۔ ایک ظالم (قبضہ گیر) کا نقطہ نظر ہوتا ہے جس کی رُو سے وہ مقامی باشندوں کے ساحل و وسائل ہی کو اصل سمجھتا ہے نہ کہ وہاں کی زندگیوں کو،وہ مقامی باشندوں کو جاہل ،جنگلی، وحشی بنیاد پرست،رجعت پسند،ترقی مخالف جیسے القابات سے نوازتا ہے تاکہ دنیا کو یہ بتا سکے کہ یہ بجُز ہمارے اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں اگر ہم انہیں چھوڑ دیں (آزادی دیں) تو یہ ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے قابض کی یہی روایت قدیم روم سے آج تک مختلف تبدیلیوں کے ساتھ جاری ہے اور مظلوم کے زندگی کےلیئے شدید تکلیف کا باعث بنے ہیں۔

کچھ ایسا ہی مسئلہ بلوچستان کا ہے اور یہی رویہ بلکہ اس سے بڑھ کر بلوچوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔جس سے بلوچوں کی زندگی اذیت ناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ہم ان چنیدہ واقعات کا یہاں مختصر تزکرہ کرینگے جو حال ہی میں رونما ہوئے اور قابض کے سیاہ کرتُوتوں کے آئینہ دار ہے۔

26 مئی 2020 کو بلوچستان کے شہر کیچ (تربت) کے علاقے ڈھنُّک میں پاکستانی قابض فورسز کے حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے رات کے دو بجے ایک گھر پر حملہ کیا گھر میں لوٹ مار اور چوری کے غرض سے آئے ہوئے ان ڈیتھ اسکواڈ والوں کے سامنے ملکناز نامی عورت چٹان کی طرح ڈٹی رہی جو اس وقت گھر میں اپنی چھوٹی بچی برمش کے ہمراہ تھی۔ڈیتھ سکواڈ والے نے ملکناز نے زود کوب کرکے شہید کردیا اور معصوم بچی برمش کو شدید زخمی کردیا۔اس واقعے کے خلاف اکثر علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے مگر نتیجہ زیرو۔انہی ڈیتھ اسکواڈ والوں کی تصاویریں موجودہ وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے ساتھ منظر عام پر آئے جس سے انکی پشت پناہی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

13 اگست 2020 کو تربت میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے باغ میں کام کرنے والے حیات بلوچ کو ایف اہلکاروں نے دن دہاڑے فولیوں سے بھون ڈالا۔حیات کراچی میں زیرتعلیم تھے مگرچھٹیوں کی مناسبت سے وہ اپنے آبائی علاقے آئے جس کا صلہ اسے موت کے طور پر مل گیا۔حیات بلوچ کو گولیاں مارنے والے اہلکار کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو محض سنائی گئی ان جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کو جو ڈیرہ غازی خان سے لیکر شال تک اور کراچی سے گوادر تک ابھر رہے تھے۔نتیجہ یہی ہوا کہ کچھ نہیں ہوا سوائے چند تماشوں کے جو ہم نے روڈ پر نعرے لگا کر اور موم بتیاں اٹھا کرکیئے۔

شہید حیات بلوچ کے واقعے کے چند روز بعد گوادر میں فورسز کی ایک گاڑی نے ایک بلوچ کو کچل دیا جو افراتفری کے عالم میں تاریکی کے دبیز پردوں میں دب گئی اور ابھر نہ سکی کہ معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پہ ختم.

13 فروری 2020 : بلوچستان یونیورسٹی کے طالبعلم سمیع بلوچ جس کا تعلق نوشکی سے تھا۔سمیع منشیات فروش کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹا رہا۔اور اپنے علاقے کو منشیات سے پاک کرنے کی کوشش کی مگر منشیات فروشوں نے دن دہاڑے پولیس کے سامنے سمیع بلوچ کو گولی مار کر شہید کیا۔شدید عوامی دباؤ کے باوجود آج تک سمیع کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔اور سمیع کا روح چیخ چیخ کر ہم سے انتقام کا طلبگار ہے مگر ہماری بے حسی یہ ہے کہ شہادت کی دن تک یاد نہیں رہتا۔انتقام تو بڑی دور کی بات ہے۔

یکم مئی 2020 کو بلوچ صحافی و رائیٹر ساجد حسین جو پاکستانی ریاست کے بے پناہ مظالم کی وجہ سے بیرون ملک سویڈن پناہ لیئے ہوئے تھے اسے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کاروں نے شہید کیا جس کیلئے ھماری مذمتی بیانات چند دنوں کیلئے سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہی۔بعد ازاں وہ بھی دم توڑ گئے۔

22 دسمبر کو بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئر پرسن بلوچ طلباء سرپرست بانک کریمہ بلوچ (جو کہ کینیڈا میں پناہ لیئے ہوئے تھا) کو ایک روز قبل لاپتہ کیا گیا اگلے اس کی لاش برامد ہوئی۔جس پر احتجاج و مظاہرے ہوئے۔ غائبانہ نماز جنازے ادا کی گئی۔

اس کے علاوہ مستونگ اسپلنجی میں پانچ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا۔جن میں دو کمسن لڑکے سمیع اور جمیل بھی شامل ہے۔فورسز کی ان کاروائیوں پر بھی محض ہم کالمز ،تصاویر اور کیپشن شائع کرتے رہے۔

گزشتہ روز کیچ میں ایک دس سالہ کمسن بچے مراد امیر کو پاکستانی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور تشدد کی گئی تھی بعد ازاں بے ہوشی کی حالت میں اسے گاڑی سے پھینک دیا گیا۔اس بچے کے ساتھ زیادتی کے خلاف ہمارا ردعمل کیا ہے؟ ہم کیا عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں جس کے کچھ نہ کچھ نتائج ہو۔بلوچ قوم کے بیداری کے حق ھمارے مذمتی بیانات احتجاجی مظاہرے کس قدر سودمند ثابت ہورہے ہیں؟یا ایسے کاموں سے قوم کاہلی اور سہل پسندی کا شکار ہورہا ہے۔

پاکستانی آرمی کے کیپٹن حماد نے جب سندھی ڈاکٹر شازیہ خالد کا سوئی (کوہلو) میں ریپ کیا تو اس کے خلاف نواب اکبر بگٹی نے شدید مزاحمت کی اور اسے بلوچ روایات و اقدار کی توہین قرار دے دیا جس پر پاکستانی فوج آگ بگولہ ہوگئی لیکن نواب بگٹی نے بلوچ غیرت و کیلئےجان گنوائی۔عطاءاللہ مینگل نے نواب بگٹی کی شہادت کے بارے میں کہا۔کہ نواب بگٹی کی شہادت سو سال تک بلوچ تحریک کو ایندھن فراہم کرتی رہے گی۔

مگر آج روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان واقعات کو بلوچ قوم چاہے وہ کسی بھی طبقہ فکر سے ہو چند مذمتی بیانات ،سوشل میڈیا پر چند پوسٹیں یا پھر چند دنوں کی احتجاج تک محدود ہے۔ہر احتجاج پانچ چھ دن کے جوش و خروش کے بعد لوگوں کے ذہن سے محو ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں۔لیکن کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گاکہ بچوں کا ریپ ہوتا رہے ہم تماشہ دیکھتے رہیں،عزتیں پامال ہوں، نوجوان کو خون بہایا جائے اور ہم اسی ڈگر سے زرہ برابر اٹھنے کو تیار نہ ہو تو اس صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ختم ہونے کا سامان خود تیار کررہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں