دین جان کا رشتہ کیا مجھ سے؟
تحریر: عائشہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
28 جون 2009 کو پاکستانی فورسز نے ڈاکٹر دین جان کو دورانِ ڈیوٹی خضدار کے علاقے اورناچ سے رات کے وقت اُٹھا کر لاپتہ کردیا گیا اور 2021 کی جون کو دین جان کو 12 سال مکمل ہونگے کہ وہ لاپتہ ہیں، اور میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ڈاکٹر دین جان سے میرا رشتہ کیا ہے کہ جب بھی بات جون کے مہینے کی آتی ہے یا لاپتہ افراد کی تو سب سے پہلے مجھے دین جان کی یاد آتی ہے، لیکن سوچنے کے بعد مجھے شہید ڈاکٹر منان کی یہ بات یاد آتی ہے جب میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ ڈاکٹر دین جان کیسا شخص تھا؟ شہید منان نے جواب دیا کہ ڈاکٹر دین جان خود ایک انسان دوست اور مہربان شخص تھے قوم کیلئے اور آپ قوم کا حصّہ ہیں، اس لئے وہ آپکو قریبی رشتہ دار لگتے ہیں۔
جب بھی سمّی اور مہلب کو دیکھتی ہوں تو آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں، سب لاپتہ افراد کا درد ایک ہی ہے لیکن کبھی کبھی دین جان کو یاد کرتی ہوں تو درد بڑھ جاتا ہے، مجھے پریشانی اور مایوسی محسوس ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دین جان کیلئے میں اتنی بے چین ہوں تو وہ لاڈلی بیٹی سمّی دین جان کو یاد کرکے کس حالت میں ہوگی؟ یہ بات کو وہ جانتی ہے ، ایک بات سچ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی دل کی بات کو جان نہیں سکتے ، لیکن بعض اوقات ہم کچھ لوگوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں وہ درد کو ہم محسوس کرتے ہیں جس درد سے ہم گزر چکے ہیں ، پتہ نہیں آج دین جان کہاں ہے ؟ وہ کس حال میں ہے ؟ کیسا دکھتا ہے ، میں یہ نہیں جانتی لیکن میرا دل یہی کہتا ہے کہ دین جان زندہ ہے ، اور کبھی یہ بات کو سُنتی ہوں سمّی کی منہ سے میں اپنے آپکو یتیم سمجھوں، کیا سمجھوں، میرا باپ زندہ ہے کہ نہیں مجھے صرف یہ بات بتادیں ، سمّی کی ان باتوں کو سُنتے ہی دل خون کی آنسوں روتا ہے لیکن دل یہ بار بار کہتا ہے کہ دین جان دشمن کے زندان میں زندہ ہے، ہم بلوچ قوم نے ایک دین جان نہیں ہزاروں کی تعداد میں دین جان جیسے انسان دوست ، اور درد محسوس کرنے والے ہستیوں کو کھو چُکے ہیں، اگر ایک کے لاپتہ ہونے کے بعد ہم آواز اُٹھاتے تو شاید آج دین جان ، ذاکر مجید ، زاہد بلوچ سمیت دیگر انسان دوست لاپتہ نہیں ہوتے، لیکن ہم ہر ایک یہ سوچتا ہے کہ یہ ہمارا مسلہ نہیں جسکا مسئلہ ہے وہ آواز اُٹھائیں، آج اسی بات نے ہمارے دل میں آگ لگایا اور وہی آگ ہر بلوچ کے گھر کو جلا رہاہے۔
ایک بات سچ ہے کہ میرا کوئی لاپتہ نہیں ہے ، لیکن زاکر مجید نے قوم کیلئے بات کیا تھا وہ لاپتہ ہوا ، دین جان قوم کی مظلومیت کی بات کیا کرتا تھا وہ لاپتہ ہوا ، انکے قربانیوں کو ہم یاد کریں اور ہم یہ بھی یاد کریں کہ انہوں نے ہم کو اپنا سمجھ کر ہمارے لئے بات کیا تھا ، وہ ہم سب کے رشتہ دار ہیں کیونکہ وہ ہم کو اپنا سمجھتے تھے ، انکے دل میں ہمارے لئے درد تھا ، وہ یہی چاہتے تھے کہ بلوچ قوم غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوجائیں اور آزادی کی زندگی جی سکیں، جس قوم کیلئے وہ بات کرتے تھے اُس قوم کا حصّہ ہیں ہم تو ہم قوم کی حصّہ ہوتے ہوئے پھر اس بات کو کیوں دل میں بٹھاتے ہیں کہ ہمارا کوئی شخص لاپتہ نہیں ہوا ہم کیوں بات کریں ۔
جب وہ ہمارے لئے اپنی زندگی ، قیمتی وقت مال و دولت سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھے ، ڈاکٹر دین جان نے یہ نہیں سوچا کہ میں ڈاکٹر ہوں میرا سب کچھ برابر ہے قوم سے مجھے کوئی واسطہ نہیں ، لیکن جب بات آج دین جان کیلئے ہوتا ہے تو کچھ لوگ بار بار یہی کہتے ہیں کہ ہمارا کیا ہم کیوں آواز اُٹھائیں ہمارا اپنا کوئی لاپتہ نہیں ، اگر بات یہی ہے تو میری بھی ایک بات سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ دشمن بلوچ کرکے لاپتہ اور شہید کرتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون گنہگار اور کون بے گناہ ہے ، شاید ہم میں سے کسی کا اپنا لاپتہ ہوجائے تو پھر ہم کیا کہینگے باقی لوگ آجاکر ہمارا ساتھ دیں ہماری آواز بنیں پھر ہم کو شرم محسوس ہونا چاہئیے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔