تعلیم اور بلوچستان ؟ – شاہ میر شفیق

473

تعلیم اور بلوچستان ؟

تحریر: شاہ میر شفیق

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں تعلیم اور تعلیمی سرگرمیوں کو جانچنے سے قبل یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ بلوچستان کا خطہ کن معروضی حالات کا شکار ہے؟وہاں کے نام نہاد حاکموں کی ذہنیت کیا ہے؟اور لوگوں کی طرز زندگی کیسی ہے؟

اتنی سی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ بلوچستان نامی خطہ بزور شمشیر غلامی کی آگ میں دھکیلا گیاہے۔بلوچ قوم کی ثقافت ،تاریخ اور زبانوں کو مسخ کرنے کا عمل روز اول سے جاری و ساری ہے۔زندگی پنپنے کا موقع شاذ و نادر ہی میسر آیا ہو۔تو ایسے میں تعلیم کی بات احمقی کے سوا کچھ نہیں۔لیکن بہتر سال کے اس دورانیے میں بلوچ قوم اور بلوچستان کو جن ہتھیاروں سے ایذا دی جاتی رہی ہیں ان میں تعلیم کا اپنا مقام ہے جسے رد کرنا بھی کچھ کم احمقی نہیں۔

برطانوی قبضہ گیروں نے جس طرح بلوچستان میں سنڈیمن ہائی سکول اور سنڈیمن ہسپتال (موجودہ سیول ہسپتال کوئٹہ) جیسے اداروں کو اپنے مفادات کیلئے قائم کیا۔جہاں اسکی فوجیوں کو علاج اور بطور اطاعت بردار لوگ میسر آتے تھے۔بالکل اسی طرح پاکستان نے بھی اطاعت بردار اور فرمانبردار پیدا کرنے کیلئے نام نہاد تعلیمی ادارے شہروں میں بنائے۔کیونکہ شہری زندگی اپنے قومی روایات سے دور ہوتی رہتی ہے لہٰذا وہ لالچ میں جلدی آجاتے ہیں۔جن کا ذکر بابا مری بھی اپنے انٹرویو میں کرکے کہتا ہے کہ 1973 کی لڑائی میں اکثر دیہاتی اور قبائلی لوگ تھے شہری جو تعلیم یافتہ تھے وہ فقط نعرے جلسہ جلوسوں تک محدود تھے۔بابا کے اس بات کی وضاحت یہی ہے کہ پاکستانی نظام تعلیم نے بلوچ اور بلوچستان کو سطحی ،کرپٹ اور کھوکھلی ذہنیت میسر کی۔جو بجائے بلوچ اور بلوچستان کا کیس لڑتے وہ پاکستانی سیاست میں الجھ گئے۔(اگرچہ اب “جنگ کی پانچویں فیز میں” صورتحال مختلف ہے۔)
یہی نہیں بلکہ بلوچستان کے صورتحال کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔بلوچ کو وحشی ، قبائلی اور جاہل کا لقب دیا گیا۔دو تین سال قبل پنجاب کے نصاب میں بلوچوں کو جاہل وحشی لکھا گیا تھا۔بلوچستان میں تعلیمی نصاب کی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔

پاؤلو فریرے اپنی کتاب “تعلیم اور مظلوم عوام” میں لکھتے ہیں۔
“طلباء کی تخلیقی قوت کو کم سے کم کرکے بنکنگ نظریہ تعلیم جابروں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو نہ تو یہ چاہتے ہیں کہ دنیا اور کائنات ان پر منکشف ہو اور نہ ہی اسکو تبدیل ہوتے ہوئے اسکو دیکھنا چاہتے ہیں۔”

بلوچستان کے تعلیم پر یہی بات بڑی حد تک صادق نظر آتا ہے۔بلوچستان میں سکولوں کے سائنسی نصاب میں قریباََ بیس سال قبل کے مسترد ہونے والے تھیوریز کو رٹایا جاتا ہے اور بعد میں طالب علم چپڑاسی و کلرک کے پوسٹوں کیلئے عمر گنوا دیتا ہے۔سرکاری سطح پر تعلیم کے چرچے زور و شور سے کیئے جاتے ہیں مگر ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں سات لاکھ بچوں کو سکول میسر نہیں۔کئی لاکھ بچے میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں یونیورسٹی تک پہنچتے یہ تعداد انگلیوں میں گنے جاسکتے ہیں۔بلوچستان کا مڈل کلاس طبقہ اسی نام نہاد تعلیم کو قومی اہداف میں سے ایک ہدف قرار دیتا ہے لیکن در حقیقت یہ کرپٹ ذہنیت کو جلا بخشنے میں اول نمبر پر ہے۔ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں تعلیمی بجٹ %4 سے بڑھا کر %24 کیا گیا مگر یہ کاغذی کاروائی اور کھوکھلے دعووں کے علاوہ کچھ نہ تھے۔کیونکہ جس سال تعلیمی بجٹ میں اضافہ ہوا اسی سال ہی سکول کے بچوں کی اکثریت کو کتابیں تک میسر نہیں آیا۔جو ان بلند و بانگ دعوؤں کی نفی کیلئے کافی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں