بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شہدائے مرگاپ کی بارویں برسی کے موقع پر ایک آن لائن دیوان کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ، انفارمیشن سیکرٹری دلمراد بلوچ، بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ، کمال بلوچ اور حاجی نصیر بلوچ نے خطاب کیا۔
شہدائے مرگاپ دیوان کے صدرمجلس چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے مرگاپ شہید چیئرمین غلام محمد، شہید لالامنیر، شہید شیر محمد سمیت تمام شہدائے بلوچ سرزمین کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا، ”آج ہم اپنے قائد کی بارہویں برسی پر انہیں یاد کررہے ہیں۔ قومی سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کا داغ بیل ڈالنا اور اس جدوجہد کو آگے بڑھانے اور قومی مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ایک عظیم قربانی ہے“۔ عظیم اور بہادر انسان ہی ایسے فیصلے کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایسے رہبر میسر ہوئے جو مسکراتے ہوئے اپنی سرزمین کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔
انھوں نے کہا موجودہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد آزادی کی فکر پر 2003 میں رکھی گئی ہے۔ اپنے قومی مقصد کے لیے حالات کے مطابق اپنے پروگرام کو آگے بڑھانا، پروگرام کو اپنے لوگوں تک پہنچانا اور اپنے نظریے اورکمنٹمنٹ پر پورا اترنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا بلوچ نیشنل موومنٹ کا طرہ امتیازہے۔ پارٹی میں ہمیشہ قربانی دینے کا جذبہ موجود رہا ہے جو آج بھی ہے۔اس لیے ایک مختصر وقت میں ہم عظیم قربانیوں کے طفیل ایک بڑی ارتقائی عمل سے گزرے ہیں۔ میں اسے پارٹی کی بڑی کامیابی سمجھتا ہوں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ سیاست کے سابقہ مختصر یا طویل ادوار کی اپنی تسلسل کو برقرار نہ رکھنے کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اہم وجہ اس وقت کے لیڈرشپ کی قوم اور سیاسی کارکنوں کی مختلف شکل،مختلف اصطلاحات اورمختلف معنوں میں سیاسی کارکنوں کی نظریاتی استحصال ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قومی مقصد یا قومی آزادی کا رخ ہمیشہ پاکستانی اداروں کی جانب موڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے لیڈرشپ 2003 کو قومی نظریے اور فکر کے ساتھ اپنے کونسل سیشن کا انعقاد کرتا ہے تو پارٹی فیصلہ کرتاہے کہ قومی مقصد کے حصول کے لیے قوم کو زہر آلود سیاست اور کارکنوں کونظریاتی استحصال سے نجات دے کر قومی آزادی کے لیے ایک سیدھی سمت کا تعین کیا جائے۔ اس ادراک کے ساتھ اس راہ میں مشکلات ہیں، تکالیف ہیں لیکن لیڈرشپ قومی رجحان میں تبدیلی کے لیے اپنے فیصلے پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ نوے کی دہائی سے ہمارے اندرونی حلقوں میں قومی آزادی اورغیرپارلیمانی سیاست پر مباحثے کا آغاز ہوتا ہے اورمسلح جدوجہد کے سیاسی حمایت اور اس کے لیے زمین ہموار کیا جاتا ہے۔ 2003 سے لے کر آج تک کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ نے بحیثیت قوم اس بیانیہ کو اپناکر عملی طور پر اس کا حصہ بن چکا ہے اور ہرعمر، ہر طبقہ فکرسمیت شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے قربان ہورہے ہیں۔ ہزاروں لوگ زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں، لیکن بلوچ نوجوانوں کی اپنی جدوجہدسے وابستگی کو کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔ آج ہم اپنی اٹھارہ، بیس سالہ جدوجہد کا جائزہ لیں، قربانیوں اور اس مقام کو دیکھیں جس پر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان پہنچ چکا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے میں نہیں کہتا ہوں کہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کا کارنامہ ہے لیکن اس میں بی این ایم ایک مضبوط اور اہم پارٹی کی شکل میں واضح موقف کے ساتھ موجود رہی ہے اور دوسری آزادی پسندتنظیموں کا کنٹری بیوشن شامل رہا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا آج بلوچ نیشنل موومنٹ ایک ادارے کی حیثیت سے موجود ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کا بنیادی فکر و فلسفہ یہی ہے کہ ہم ادارتی پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں گے اور ہماری طاقت کا سرچشمہ بلوچ قوم ہے، اپنی عوامی طاقت اور سیاسی اداروں کی ذریعے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔ واجہ غلام محمد کوبہت مختصر وقت ملا اور وہ جس کمٹمنٹ، لہجے اور رفتار سے کام کررہے تھے انہیں سو فیصد یقین تھا کہ دشمن انہیں قتل کرے گا۔ میں نے بحیثیت سیکریٹری جنرل چیئرمین غلام محمد بلوچ سے کہا کہ ہم سینئر دوستوں کی اپیل ہے کہ آپ کچھ مہینے کے لیے زیر زمین چلے جائیں تاکہ دشمن کوموقع نہ مل سکے اور ہم اپنے آپ کو مزید آرگنائز کرسکیں لیکن واجہ غلام محمد صاف منع کرتاہے اور کہتا ہے کہ میں چار دن بھی زندہ رہا تو یہیں کام کرتے ہوئے مارا جاؤں، یہ (ان کی نظرمیں) وقت اور حالات کی ضرورت تھی۔ ان کی قربانی، انتھک محنت،سخت اورمضبوط کمٹمنٹ کے ساتھ جدوجہد اور شہادت نے بلوچ قومی جدوجہد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کی استحکام، عوامی بھروسے کی تعمیر میں اہم کنٹریبیوشن دیا ہے۔
انھوں نے کہا بلوچ سیاست میں نشیب و فراز آئے ہیں۔مختلف ادوار میں بہت فریب اور دھوکہ دہی ہوا ہے۔ عوام کا بھروسہ ہی اٹھ چکا تھا لیکن غلام محمد، لالامنیر، شیرمحمد، ڈاکٹر منان، صمد تگرانی، استاد علی جان، شہید رسول بخش، جاوید نصیر، نصیر کمالان، حاجی رزاق، رزاق گل، عابدشاہ جیسے اہم دانشور، زانتکار اور فہم و فراست کے حامل رہنماؤں سمیت کارکنوں نے اپنے انقلابی رویے، جہدمسلسل اور قربانیوں سے عوامی بھروسے کو از سر نو بحال کردیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ایک عوامی بھروسہ موجود ہے۔ آج کوئی نہیں کہتاہے کہ کل یہ لوگ پسپا ہو جائیں گے یا اپنا نظریہ اور بنیادی اساس تبدیل کریں گے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ان عظیم ساتھیوں کی شہادت اور قربانی کے باوجود بلوچ نیشنل موومنٹ آج بھی بحیثیت ادارہ اسی فکرو نظریہ، قربانی کے جذبے اور مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اپنی جدوجہد آگے بڑھا رہا ہے۔ ہاں جدوجہد میں مختلف مراحل آتے ہیں، پہلے مرحلے یعنی آغاز میں ہمیں اپنی قوم کو موبلائز کرنا تھا، عوامی بھروسے کی ازسرنو تعمیر کرنا تھا، انقلابی تربیت کی ضرورت تھی۔ اس موبلائزیشن کے مرحلے میں ہم نے سینکڑوں کے حساب سے اپنی ساتھیوں کی قربانی پیش کی ہے لیکن ہم نے اپنی قوم کو متحرک کردیا اور آج پوری قوم آزادی کی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ قوم کو ہمیشہ انقلابی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان پندرہ، سولہ سالوں میں بلوچستان کے کونے کونے میں پارٹی دوستوں نے انقلابی طرز پر کام کیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے بلوچ قوم کی تحریک سے ہم آہنگی اور وابستگی کی صورت میں موجود ہے۔ آج بھی بلوچ نیشنل موومنٹ کے ساتھی اپنی وسائل اور مواقع کی مناسبت سے اپنے لوگوں کی تربیت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا ہمیں وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔اندرونی اختلافات سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے مقبول ترین ساتھی مختلف علاقوں میں دورے پر روانہ کردیئے اور ہمارے ساتھی وہاں شہید بھی ہوئے۔ ہمیں اس شہادت پر فخر ہے لیکن یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ آج بھی ہم پہلے مرحلے کی طرز پر کام کریں۔ لہٰذا ہم نے اپنے طریقہ کار میں بنیادی اور انقلابی طریقہ کے مطابق تبدیلی لائی ہے۔ آج ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکن موجود ہیں۔ لیکن پہلے مرحلے کی طرح کام کرنا عقل مندی نہیں ہے کیونکہ ہم کسی بھی قیمت پر اس خوش فہمی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کہ ہمارا دشمن مہذب بن چکا ہے یا اس کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم اس شعوری ادراک کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ ہم ایک غیر مہذب دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا جب ہم ادارے کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف لفاظی نہیں بلکہ اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ پارٹی صدر چیئرمین واجہ غلام محمد، سابق نائب صدر لالا منیر سمیت دوستوں کی ایک بڑی تعداد کو دشمن شہید کرتا ہے۔ چند ساتھی جدوجہد سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں لیکن بی این ایم کا وجود باقی رہتا ہے۔ بی این ایم کے ادارے انقلابی حکمت عملی اور مزید قوت و توانائی کے ساتھ فعال ہوتے ہیں۔ آج میں واضح کرتا ہوں کہ بی این ایم بلوچ قوم اور بی این ایم کے کارکنوں کی پارٹی ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کو دشمن ختم کرسکا ہے اور نہ اپنی ذہنی اختراعی سے رائے قائم کرنے والے ہمیں ناکام قرار دے سکتے ہیں۔ اختلاف رائے کو ہم نے ہمیشہ لبیک کہا ہے۔ آج بڑی تعداد میں پارٹی ذمہ دار دوستوں کی اختلاف رائے ڈرافٹ کی ذریعے آتے ہیں۔ مناسب فورم پر بات ہوتی ہے۔ لیکن اپنے ذہنی اختراع سے رائے قائم کرکے جج بن کر فیصلہ دینے والے پارٹی کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اس پارٹی کو کوئی بھی شخص اپنی ذات کے لیے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔ پارٹی کے خلاف مختلف مواقع پر سازشیں کی گئی ہیں لیکن ناکامی ان کا مقدر ٹھہرا ہے۔ بی این ایم شہدا، بلوچ قوم اور کارکنوں کی پارٹی ہے۔ وہی اس کے وارث ہیں۔ اہم چیئرمین غلام محمد کے فکر و فلسفے پرکسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ میں یہ بھی واضح کردوں کہ پارٹی فیصلوں کا استحقاق پارٹی کے بااختیار اداروں کے پاس ہے۔ پارٹی ادارے ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں کس وقت،کونسی حکمت پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں اور یہ نوشتہ دیوار ہے۔