بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہوشاپ واقعے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانیت سوز واقعات کا تسلسل نہایت سنگین شکل میں رواں دواں ہے۔ جہاں ایک جانب نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جارہا ہے اور ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کی جا رہا ہے وہیں ریاستی ادارے تمام قسم کے قومی اور انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے چادر اور چار دیواری کے پامالی کا مرتکب ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں سکیورٹی کے نام پر عوام کو تنگ کیا جا رہا ہے اور عوام کو ذہنی اور جسمانی حوالے سے شدید قسم کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔
بلوچستان میں جاری اس ظلم و بربریت میں تمام مکاتب فکر برابر طور پر متاثر ہیں اور کسی قسم کی طبقاتی تفریق کو روا نہیں رکھا جا رہا ہے۔عوام کے ذریعہ معاش کے تمام طریقہ کار کو بند کیا جا رہا ہے جو کہ معاشی قتل کے زمرے میں آتا ہے۔ بارڈر بندش جیسی پالیسیاں عوام دشمن پالیسیاں جن کا بنیادی محور عوام کے لیے روزگار کے مواقع بند کرنا ہے۔ بلوچستان کے اس خوف اور گٹھن زدہ فضا میں جہاں روزگار کے بند کیے جا رہے ہیں وہیں بارڈر کو بند کرکے سینکڑوں تیل بردار گاڑی ڈرائیورز کی زندگی کو داؤ پر لگایا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ دشمن پالیسیوں کا یہ تسلسل دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے جہاں کہیں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر سیاسی کارکنان کو جبری طور لاپتہ کیا جاتا ہے اور کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھنک دی جاتی ہیں تو کہیں بیچ چوراہے پر نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے۔ ظلم و بربریت کی اِس ماحول نے اپنے تمام تر ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اب ایک ایسی شکل اختیار کی ہے جہاں کمسن بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقررین نے کہا کہ فورسز کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کا اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہیں اہلکار کئی گھناؤنے اعمال کا مرتکب ہوئے ہیں۔ فورسز اہلکاروں نے جہاں چادر اور چاردیواری کو مسلسل پامال کیا ہے وہیں نہتی عوام کو جسمانی طور پر زدوکوب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ فورسز اہلکاروں کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے عوام کے املاک کو نقصان پہنچانے اور سیاسی کارکنوں کے گھروں پر لوٹ مار جیسے افعال نمایاں ہیں ان ہی اہلکاروں نے حیات بلوچ جیسے نوجوان کو بیچ چوراہے پر کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان میں فورسز کی جانب سے کیے گئے تمام غیر قانونی اعمال پر ایک کمیشن تشکیل دے تاکہ بلوچستان میں جاری انسانیت سوز واقعات کی شفاف تحقیق ہوسکے اور اس عمل میں ممکنہ تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ بلوچستان میں جاری تمام مسائل غیر معینہ طور پر حل طلب ہیں جس کے لیے حکومت کی جانب سے سنجیدگی نہایت ہیں ضرورری ہے۔ حکومت وقت تمام غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے بلوچستان میں جاری جبر کے خلاف سنجیدہ عملی قدامات کرے۔