بلوچ قوم میں انتشار – نذر بلوچ قلندرانی

372

بلوچ قوم میں انتشار

تحریر: نذر بلوچ قلندرانی

دی بلوچستان پوسٹ

آپ کو یاد ہوگا چوتھویں یا پانچویں کلاس میں ایک سبق ہوا کرتا تھا جس میں ایک بوڑھے شخص کے چار بیٹے تھے جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا تھا تو اس نے اپنے بیٹوں سے چار لکڑیاں لانے کو کہا اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک لکڑی دے کر انہیں توڑنے کا کہا تو ہر کسی نے باآسانی سے لکڑیاں توڑ دی جب چاروں لکڑیوں کو ملا کر توڑنے کو کہا تو ہر کسی نے اپنی طاقت آزما لی لیکن وہ لکڑیوں کو توڑ نہیں سکیں، تو بوڑھے باپ نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ ساتھ رہو گے تو کوئی بھی طاقت تمہیں توڑ نہیں سکتا، ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اس سبق کا مقصد سمجھ آیا، جب ہم مسلمان تھے بلوچ تھے یا پھر مری تھے تو دریا بھی ہمارا حکم مانتا تھا چرند، پرند، درند اور حیوانات سب ہمارے حکم کی فرمانبرداری کیا کرتے تھے، اس بات کو یاد رکھا جائے کہ اس وقت بھی یہاں مادیت پرست طاقتیں موجود تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ عزت ہماری گود میں پھینک رکھی تھی لیکن آج ہم ہر جگہ زلیل وخوار ہو رہے ہیں، ہمارے ہی دھرتی اب ہمارا نہیں رہا، ہمارے وسائل ہمارے نہیں رہیں، بولنے اور لکھنا کا حق ہمارا نہیں رہا۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہے لیکن آج ہمارے مخالفین اپنے دیرینہ مقصد میں پورا اتر گئے اور بلوچ قوم کو بری طرح انتشار کا شکار کرکے انہیں صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، تاسف کی بات ہے کہ ہم نے اپنا قبلہ اول اور اپنے شہداء کو بھول کر انہیں خدا گھڑ لیا ہے ، یہ جانتے ہوئے کہ یہ مصنوعی خدا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اس کے باوجود بھی ہم دھڑا دھڑ اس کی پوجا میں مست ہیں اور اپنے مصنوعی خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے بھائی کا گلا کاٹنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے۔

ہم نے ایک غلام ہونے کے باوجود اپنے بھائی کو بھی اپنا غلام بنا رکھا ہے اگر ہم حقیقت کو دیکھیں تو ہماری سب سے بڑی خرابی جس کو ہم اپنی خوبی تصور کرتے وہ یہ کہ ایک قوم بن کر جدوجہد کرنے کے بجائے ہم مختلف فلاحی تنظیم بنا کر اپنے قوم کو عدل و انصاف اور ان کے حق دلوانے کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو ہر عام و خاص کے سمجھ سے بالاتر ہے، دراصل وہ اس موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے؟ کسی کے حقوق کو کس طرح چھینا جائے؟ اور کس طرح اپنی حکومت میں اور شان و شوکت میں اضافہ کیا جائے؟ اور وہ ان کو زر خرید غلام سے بھی کم تر تصور کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کو اگر پیٹ بھر کر کھانا مل گیا تو ہمارے لئے کون آلہ کار بنے گا اس لئے تو آج بلوچستان ضلع کوہلو میں ہر کوئی کسی تنظیم کا سربراہ ہے۔ اگر ہم ماضی کا مطالعہ کریں تو نواب خیربخش مری کے دور کوسنہری دور کہا جاتا ہے مگر آج ہم نے وہ ہستی گنوادی ہے آج ہم پر ایسے میر، وڈیرے سردار اور حکمران مسلط کر رکھے ہیں، جنہیں ہمارے مطلق خبر نہیں وہ اپنی قوت، مادی حیثیت اور ظاہر رکھا دکھاؤ کو بلند کرنے میں مگن ہیں۔

آج دریائے نیل کے کنارے کتے کا بھوک سے مر جانے پر باز پرس کا احساس بھی ختم ہوچکا ہے، ہمارے ذہن ہمارے جرائم کے عقوبت خانے بن چکے ہیں، آج بلوچ، اور بلوچ قوم پرست رہنما دنیا کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں ہیں، آج بلوچ قوم کے گھر اور رسم ورواج کو پامال کیا جا رہا ہے اور بلوچ ماں بیٹیاں سرعام سڑکوں پر رسوا ہو رہی ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ بلوچ قوم میں انتشار ہے اس لئے ہر کوئی ہمیں کچل رہا ہے، یہ سچ ہے کہ ایک خگنو کے دمکنے سے تیرگی کی دبیز تہہ بھی نہیں اچٹ سکتی اور یہ بھی درست ہے کہ آج بلوچستان میں اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنماوں، نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشوں اور انکے پیچھے بےآبرو ہوتی ہوئی بلوچ بیٹیوں کی سسکیوں کی آواز کی ہلکی سی گونج سے سب باخبر نہیں ہوسکتے، رات کی گہری تاریکی ایک دیئے کی لو سے نہیں چھٹ سکتی، لیکن سیاہ شب کا غبار بن کر جینے، جھوٹ کو سچ کا آنچل اوڑھنے، تاریکی کو روز ورشن سمجھنے اور ذاتی مفادات کی خاطر بلوچ قوم کی حق دبانے ان پر طرح طرح کے ظلم جبر اور بربریت سے بلوچ اور انکی سرزمین کے دشمن اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں