بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے سے بلوچستان کے مختلف علاقہ جات میں جاری آپریشنوں میں سیاسی کارکنان کے گھروں کو مسمار اور چادر و چار دیواری کی پامالی کی جا رہی ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کے گذشتہ ہفتے سے بلوچستان میں فوجی آپریشن میں شدت لائی گئی ہے اور اِس دورانیے میں سیاسی کارکنان کے گھروں پر چھاپے اور لوٹ مار کا تسلسل جاری ہے۔ رواں ہفتے مند میں جاری فوجی آپریشن میں لمہ وطن شہید بانک کریمہ بلوچ کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی اس کے علاوہ دیگر درجنوں کارکنان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے اور خاندان کے افراد کو زدوکوب کرنے کے ساتھ توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔ اس طرح کے عمل انسانی حقوق کے تمام عالمی اقدار اور اصولوں کے منافی ہے اور ایسے عمل کے خلاف عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جاری ریاستی ظلم و بربریت اپنے انتہاء کو پہنچ چکی ہے اور اس جبر کے آڑ میں تمام طبقہ فکر کے افراد کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ دہائی سے بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ جہاں ایک جانب سیاسی کارکنان کا قتل عام کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب سینکڑوں سیاسی کارکنان عرصوں سے عقوبت خانوں کے نظر ہیں۔ بلوچستان میں جاری ظلم و بربریت اور سیاسی سرگرمیوں پر قدغن کے باعث سینکڑوں سیاسی کارکنان جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بلوچ سیاسی کارکنان بیرون ملک بھی محفوظ نہیں ہیں جس کی واضح مثال لمہ وطن بانک کریمہ بلوچ اور ساجد بلوچ کی یورپ میں بہیمانہ اور پراسرا قتل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تشخص کی خاطر جدوجہد کرنے والے جہدکاروں کے گھروں پر چھاپہ مارنا اور گھروں کو مسمار کرکے خاکستر کرنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ انسانی حقوق اور اقدار کی پامالی پر عالمی اداروں کی خاموشی ریاستی جبر اور ظلم وستم کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ہم اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی انسان کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ریاستی عتاب کے خلاف عملی اقدامات اپناتے ہوئے پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر جوابدہ کریں۔