بارڈر ٹریڈ یونین کے نومنتخب صدر اسلم بلوچ اورجنرل سیکرٹری گلزار دوست نے دیگر عہدیداروں کےہمراہ تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر 23 اپریل تک بارڈر پر پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں تو 24اپریل کو ڈی بلوچ روڈ پر پھر دھرنا دیکر روڈ بلاک کردیا جائیگا ۔
انہوں نےکہا کہ تیل کے کاروبار کرنے والے ہزاروں ڈرائیورز ایران بارڈر پر پھسنے ہوئیں ہیں جہاں وہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو مکران میں معاشی تباہی پھیل جائے گی۔
بارڈر ٹریڈ یونین کے نومنتخب عہدیداروں نے مزید کہا کہ ماضی میں لوگوں پر سفری اور تجارتی سختیاں نہیں تھیں لیکن گذشتہ چند مہینوں سے بارڈر پر باڑ لگا کر سفری اور تجارتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس سے صورتحال ابتر ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا اب صورتحال یہ ہے کہ 25 ،25 دنوں سے بارڈر پر ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پھنسے ہوئے ہیں نہ اس طرف جاسکتے ہیں نہ اِس طرف آسکتے ہیں، وہاں پھنسے ہوئے لوگ بھوک ، پیاس اور گرمی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہم نے اب تک چاریں لاشیں دفنائی ہیں ، مزید لاشیں اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اگر بارڈر کی صورتحال یہی رہی تو ہمارا حال بھی سوڈان اور صومالیہ کی طرح ہوگا اور پورے بلوچستان میں معاشی بدحالی پھیل جائے گی۔
گذشتہ روز تربت میں ایرانی ایندھن کے کاروبار سے منسلک افراد نے ’بارڈر ٹریڈ یونین‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالی ہے۔
اس تنظیم کے صدر اسلم بلوچ،نائب صدر شہداد بلوچ،نائب صدر دوئم پزیربشیر بلوچ، سیکریٹری جنرل گلزار دوست بلوچ،ڈپٹی سیکریٹری جنرل نور احمد بلوچ،رابطہ سیکریٹری ندیم بلوچ شمبے زئی،رابطہ سیکریٹری دوئم قمبرواحد بلوچ،انفارمیشن سیکریٹری صمد یار بلوچ،فنانس سیکریٹری کفایت اللہ بلوچ، فنانس سیکریٹری دوئم چیف عبدالطیف،پروفیشنل سیکریٹری امان اللہ بلوچ اور سوشل میڈیا سیکریٹری داد جان بلوچ کو منتخب کیا گیا۔
بارڈر ٹریڈ یونین کے سیکریٹری جنرل گلزار دوست نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے کئی دہائیوں سے مکران کے لوگوں کا گزر بسر ایران کے ساتھ تجارت سے ہوتا تھا چوں کہ گولڈ اسمتھ لائن سے پہلے یہ پورا خطہ بلوچستان ہوا کرتا تھا لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی، رشتہ داریوں،تہذیب اور زبان کے حوالے سے روابط رہے ہیں، موسمی حالات ، جغرافیہ اور تجارت کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا رہا ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان بننے کے بعد آج تک یہ تسلسل جاری رہا ہے خاص کر شادی بیا، اموات،عید کے پرمسرت تہواروں میں آپسی میل ملاپ میں سختی نہیں رہی ہے لیکن اب پچھلے کچھ مہینوں سے بلوچستان بارڈر پر باڑ لگانے کے بعد تجارتی اور سماجی سرگرمیوں کو محدود کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان بالخصوص مکران میں سب سے بڑا ذریعہ معاش ایران سے بارڈر ٹریڈ ہے جس سے معاشرے کا اقتصادی پہیہ چلتا رہا ہے ، اس تجارت سے لاکھوں لوگوں کے گھروں کے چولہے جل رہے تھے۔
تفتان سے لے کر جیمڑی تک نہ صرف ان علاقوں کے لوگوں کا اس سے گزر بسر ہوتا تھا بلکہ آواران ،خضدار، لسبیلہ، جھلاوان، سراوان اور ماشکیل کے بیشتر لوگ بھی ارڈر ٹریڈ پر انحصار کرتے تھے بالخصوص مکران کیوں کہ یہاں نہ فیکڑیاں ہیں اور زراعت اور نوکریوں کا بھی فقدان ہے۔
انہوں نے حکام بالا سے اپیل کی کہ بارڈر پر عام لوگوں کی رسائی ممکن بنا جائے تاکہ تاجر برادری اور مزدور ذرائع معاش تلاش کرکے اپنے بچوں کی کفالت کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرمسئلہ حل نہیں ہوا تو احتجاجی سلسلہ شروع کرینگے۔