افغانستان: مسلح افراد کے حملے میں چار بلوچ مہاجرین قتل

833

افغانستان کے سرحدی علاقے اسپین بولدک میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے چار بگٹی مہاجرین کو قتل کردیا ۔

واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پہ اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کرایہ کے قاتلوں نے مزید چار بلوچ مہاجروں کو سرعام قتل کردیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ظلم و جبر اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے بڑی تعداد میں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہیں مگر پھر بھی مہاجرین پاکستان کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔

قتل کیے جانے والے افراد کی ن کی شناخت غلام نبی ولد ترونگ علی بگٹی، جنگی ولد درمان بگٹی، سکا ولد دین محمد بگٹی، امیر جان ولد روستم بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ افغانستان میں بلوچ مہاجرین کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے قبل بھی افغانستان میں بلوچ مہاجرین پہ اس نوعیت کے حملے ہوئے ہیں۔

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمدغ بگٹی نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بلوچ مہاجرین کی سفاکانہ قتل کا سلسلہ جاری ہے، ایک اور وحشیانہ حملے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مزید چار بگٹیوں کو قتل کردیا۔

براہمداغ بگٹی نے مہاجرین کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی خاموشی کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ مہاجرین کا تحفظ لازمی ہے۔

خیال رہے گذشتہ سال 20 دسمبر کو کندھار شہر میں مسلح افراد کی فائرنگ سے دو بگٹی مہاجرین جانبحق ہوئے تھے جن کی شناخت گل بہار بگٹی اور اس کے بیٹے مراد علی بگٹی کے ناموں ہوئے تھیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت بلوچستان سے ہجرت کر کے ہزاروں مہاجرین قیام پذیر ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایک طرف جہاں بلوچستان میں پاکستان آرمی نے بڑے پیمانے کی آپریشن کا آغاز کیا ہے وہی دوسری جانب بلوچستان سے باہر بلوچ سیاسی کارکنوں اور بلوچ تحریک کے ہمدردوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں افغانستان کے بلوچ اکثریتی صوبے نیمروز کے معروف بزرگ بلوچ شخصیت حضرت گل بلوچ کے بیٹے نجیب بلوچ کو بھی اغواء کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ حضرت گل بلوچ کا شمار افغانستان میں بلوچستان کے تحریک آزادی کے ہمدردوں میں ہوتا ہے، ستر کے دہائی میں جب بلوچستان سے نواب خیر بخش مری کی قیادت میں ہزاروں بلوچوں نے جلاوطنی اختیار کی تو حضرت کا شمار نواب مری کے قریبی لوگوں میں ہوتا تھا ۔