بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز کو ریاست نے قتل عام کی چھوٹ دے رکھی ہے – ماما قدیر

308

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4298 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچستان کے سوسائٹی کے ایک وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دانشوروں نے ڈیتھ اسکواڈ کی تعریف اس طرح پیش کی ہے کہ جب کوئی جابر آمر حکومت یا قبضہ گیر دائرہ قانون سے باہر اپنے مخالف پرامن جدوجہد کو کچلنے کے لیے ایسے گروہ تشکیل دے جو اغواء، قتل عام، اذیت رسانی سے کام لیں ڈیتھ اسکوڈ کہلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلی بار یہ لفظ اس وقت عالمی ابلاغ کی زینت بنی جب حکومت برطانیہ نے اسی طرز کے ڈیتھ اسکواڈ شمالی آئرلینڈ میں تشکیل دیئے جس کے بدنام زمانہ پالیسی مارو اور پھینکو کے ذریعے ریپبلکن آرمی کے کئی لوگوں کو قتل کیا گیا۔ کئی ملکوں میں کشت و خون کے ذریعے خوف، دہشت کا بازار گرم رکھا گیا۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچستان میں بلوچ پرامن جدوجہد کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عوامی پذیرائی سے بوکھلاہٹ کا شکار پاکستان نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ایسے ہی غیر انسانی ڈیتھ اسکواڈز بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ڈیتھ اسکواڈ بلوچ پرامن جدوجہد سے جڑے طلباء، وکیل، ڈاکٹر، صحافیوں سمیت ہر طبقہ فکر اور عمر کے بلوچوں کو اغواء کرکے قتل کرنے میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کی سربراہی اور سرپرستی میں پاکستانی گماشتوں سمیت اس کے نام نہاد ارکان شامل ہیں۔ گذشتہ کئی مہینوں سے روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کے گھروں پر حملہ کرکے بندوق کی زور پر لوگوں کو اغواء کیا جارہا ہے، چادر اور چاردیواری کی تقدس کی پامالی کرکے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کی جاتی ہے، راہ چلتے لوگوں کو تنگ کرنا، ان کو اغواء کرنا معمول بن چکا ہے۔ اب بلوچستان میں لوگوں کی عزت نفس نہ صرف باہر بلکہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ان کاسہ لیسوں کے ان غیر انسانی بلوچ کش پالیسیوں کو تاریخ بنگلہ دیش میں قتل و خون کا بازار گرم کرنے والے مقامی افراد کی طرح یاد رکھے گی۔