‎اُسی یتیم کی کہاوت – احسان غنی

348

‎اُسی یتیم کی کہاوت

تحریر: احسان غنی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان اور بلوچ قوم کی اپنی ایک الگ پہچان,  ایک عجیب رنگ, ثقافت و فطرت ہے. بلند وبالا سُرمئی پہاڑ, دلکش ودل فریب چشمہ چکُل, درخت و جنگلی پودے, خوبصورت جغرافیہ, بلوچی ثقافت کے رنگ اور خوراک تو ایسی کہ دوسرے زمینوں کے لوگ کوہِ سُلیمان کے بڑے اور بل کھاتی پہاڑوں کا لمبہ سفر طے کرکے دوڑے چلے آتے ہیں کہ بلوچستان کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مختلف لذیز کھانوں کا لذّت لے سکیں.

خیر یہ باہر کے لوگ جب بلوچستان پہنچ جاتے ہیں تب انکے جاننے والے بلوچستان کے مقامی بلوچ احباب اپنے بلوچی روایات کے مطابق انکا کُھلے دل سے استقبال کرتےہیں. چونکہ ہمسایہ ممالک میں بلوچوں کی یہی روایات ہی انکی اونچی گردن کی وجہ بنتے ہیں. کہ جی ہم بلوچ تو بڑے مہمان نواز و فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں, جب ہمارے مہمان ہمارے وطن میں قدم رکھتے ہیں. ہم تو صاحب چاکر و گُہرام کی نسل ہیں اور ہماری مہمان نوازی تو اپنی مثال آپ ہی. اسی تہذیبی نرگسیت کے چلتے بلوچ قوم اپنی روایات کی پاسداری کو بڑے منظم طریقے سے سرانجام دیتی ہےکہ باہر کے مہمان واپس جاکر وہاں ہماری ان روایات کو یاد کریں. اور وہ صاحب تو یہاں کے جغرافیائی نظاروں کا لطف اور کھانوں کا مزہ لینے کے بعد بڑے مہذب سلیقے سے کھانے کی تعریف کرتے ہیں. پھر خیر سے اپنے دیس پہنچ کر بڑے ہی شفیق انداز میں مہمان نواز بلوچ کا فون میں شکریہ ادا کرتا ہے کہ “بلوچی بھائی آپ تو ماشاءاللہ بڑے اخلاقی اور مُہذب دنیا کے لوگ ہو.” ماشاءاللہ…!!

بلوچ قوم کے اپنے مذہبی عقیدے اور ثقافتی رنگ ہوتے ہیں. جو دوسرے قوموں اور نسلوں کی طرح بلوچ کی سرزمین پر بھی بڑے جوش و جذبےسے منائے جاتےہیں. عید کے دن قریب آرہے تھے. ہر طرف خوشی و جوش کا سما تھا. چونکہ بلوچستان کی زمین پر رہنے والےبلوچوں کا مذہبی عقیدہ بھی دنیا کے باقی مسلمانوں کے جیسے,  دین اسلام پر مبنی ہیں. جسکی اپنی ایک الگ سادگی و خوبصورتی ہے. جو بلوچ ثقافت کی طرح مساوی و برابری کے بنیاد پر پریکٹس ہوتی ہیں.

عید کی ان خوشیوں میں ہر طرف ایک جنت جیسا سما تھا. گھر سے نکلتے ہی گلیوں میں خوشی و شور کی لہریں طواف کر رہی تھی. ہنسی و قہقوں کی آوازیں, بچوں اور بوڑھوں کا چاند کی تلاش میں مگن رہنا, بازار میں کوئی اپنے نئے کپڑوں کی فکر میں,  تو کوئی نئے جوتوں کی شوق میں گھوم رہا تھا. کچھ حضرات چاقو تیز کرنے میں لگے تھے تو کچھ حمام کی دکان پہ رش لگائے بیٹھے تھے. کوئی چرس کے کش لگائے جارہاتھا تو کوۂی بنگ کے نشے میں چؤر تھا. جس سمت نظر پڑتی وہاں کچاری و خوشگپی کا ماحول تھا. طالبعلم اپنے پڑھائی اور نوکری والے حضرات اپنے دفاتر سے چھٹی کئےاپنے اپنے گھرانوں اور خاندانوں کے پاس عید منانے آئے ہوئے تھے.

اچانک اس بہشتی ماحول میں نظر ایک بچے پہ پڑی جسکی عمر 10سے12 سال کی تھی. جو اس رنگین ماحول میں بلکل عجیب اور مختلف لگا. جس کے پٹے کپڑوں اور ننگے پیروں نے بہشتی کیفیت میں ایک رکاوٹ ڈال دی. رکاوٹ آتے ہی کیفیت میں تبدیلی سی آگئی کہ یہ بچہ کیوں الگ تلگ ننگے پیر اس بازار میں گھوم رہا ہے.

“بیٹا تم کون ہو؟” اور کیوں ایسے ہو؟؟ پاس جاتے ہی یہی سوال زبان پہ دوڑ پڑی.
“میں ایک یتیم ہوں,” نمدیدہ انکھوں اور ہلکی سی تلخ انداز میں جواب دیا.

“تم ایسے کیوں بےبس و لاچار نظر آرہے ہو؟ کیا بات ہے ؟ بتاؤ ذرا… ؟؟”
کہا اُس یتیم نے مجھے کچھ ایسا..
“کہ کان رکھتے ہو تو سنو میری بات ذرا.. “

“ضمیر گر ہے تجھ میں تو سنو میری بات..
تمھارے لوگوں کی یہ رنگینی دیکھ کر..
پتہ لگتی ہے یہ بات..
کہ آزاد ہو تم لوگ.. نہیں ہو غلام تم لوگ..!!

نہیں ہوں میں آپکے جیسا..
میرے ابّا نے کی قربان اپنی ساری زندگی..
کہ آپ کی صبحِ نوّ کیلیے..
اپنا سینہ دیا ساری رات..!!

ابھی تم خاک پہچانو..
ابھی تم خاک یہ جانو..
تم تو بھول گئے ہو..
پھر اُسے پتہ تھی,  وطن کی یہ داستان..!!

تمھارے ہی حصّے کی لڑائی لڑی اُس نے..
سینے پہ کھائی گولی اُس نے..
خون بہایا اُس نے اور
ملی نہیں کوئی گرم بستر..!!

وطن کے لئے  وہ یخ و گوریچ میں ڈوبا تھا..
کھبی وہ بھوکا تو کھبی وہ پیاسہ تھا..
اپنا آج اُس نے دیا تمھارے کل کے لئے..
خاک کو سینے سےلگایا وطن کے لئے..!!

شہید کہاں مرتا ہے, وہ تو حیات ہے قوم کی..
ہاں ہوں میں یتیم,  مجھے فخر اس بات کا..
تمھاری کوئی زند ہے,  جو تم ہو غلام..
کہ لڑتے رہتے ہو آپس میں, تم لوگ صبح و شام..!!

کون ہے ذمہ دار,  کس نے بیجھی اپنی ضمیر..
کون ہے کم ظرف, اور کون ہے تم میں امیر..
تؤ ہے تمھاری صفت پہ,  تم پر ہو لعنت..
آنکھیں ہوگئیں ہیں سفید تمھاری,
تم بزدل و لغور رہوگے تا قیامت..!!

ہاں اُسی یتیم نے کہی مجھے یہی کہاوت…
ہاں اُسی یتیم نے کہی مجھے یہی کہاوت…!!

قابلِ غور بات یہاں پر یہ بن جاتی ہے کہ انسان عمر کے جس حصّے میں بھی ہو. وہ سیکھتا اپنی ذاتی تجربے سے ہے اور اپنی ذہانت و قابلیت کے بنیاد پر سرخرو و کامیاب ہوتا ہے. بلوچی روایات بھی دورِ حاضر اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر پریکٹس کی جاہیں تو یقیناً ہم اپنے آنے والے نسلوں کو ایک کامیاب راستہ دکھا سکتے ہیں اور وہ راستہ ہموار بھی کر سکتے ہیں..


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔