ہم اپنی زندگی میں قوم کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ – پیرک نتکانی

491

ہم اپنی زندگی میں قوم کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟

تحریر: پیرک نتکانی

دی بلوچستان پوسٹ

بہت سے بلوچ مرد اور عورتیں قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر وہ پریشان خیالی میں مبتلا ہو کر مایوس ہو جاتے ہیں کیونکہ انکو انکی توانائیاں اور صلاحیتیں معمولی دکھائی دیتی ہیں ۔ جن میں قومی خدمت کا جذبہ زیادہ شدید ہوتا ہے انکو اپنی ناتوانی کے احساس سے رنج بھی زیادہ پہنچتا ہے ۔ مایوسی کی وجہ سے ان میں روحانی تباہی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

بات اگر فوری تبدیلی تک محدود رہے تو لگتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے مثال کے طور پر اگر کوئی بڑی جنگ چھڑ جائے تو ہم اسکو فوری ختم نہیں کرا سکتے ۔ ریاست کی قوت کو نہ ہی فوری ختم کر سکتے ہیں ۔فورا ہم تعلیم کے شعبے میں نئ روح نہیں پھونک سکتے ۔ان سب چیزوں میں ہم کو بدی اور خرابی کا احساس تو ہو گا لیکن ہم معمول کے طریقوں سے اسکو یک دم ختم نہیں کر سکتے لہٰذا ہماری امیدوں کا تعلق آنے والے کل یا مستقبل قریب سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہم کو وہ زمانے یاد رکھنے چاہئیں جب یہ نظریات زبان زد عام ہو جائیں گے۔

جمہوریت کو لیجیے پہلے اس نظریے کو گنتی کے چند افراد نے سوچا تھا انگلستان سے ہوتا ہوا یہ نظریہ امریکہ گیا جہاں اسکو جنگ آزادی کے زمانے میں عروج آیا اور وہاں سے یہ نظریہ فرانس گیا اور روسو کی تعلیمات کے ساتھ گھل مل کر انقلاب فرانس کیلئے تخلیقی تحریک مہیا کرنے لگا۔عورتوں کی محکومی کے خلاف تحریک کو دیکھ لیجیے آج وہ ناقابل مزاحمت بن چکی ہے اور سکی کامیابی کی منزل دور نہیں ۔

خیال کی طاقت اور امید ہی ہے کہ آج انسان نے اڑنا سیکھ لیا ۔خیال کی طاقت کی وجہ سے انسان کائنات کی بے کراں وسعتوں کو جان رہا ہے اسی طاقت نے انسان کو آج انسان کو چاند تک پہنچا دیا ہے نت نئے دریافتیں ہو رہی ہیں بے شک خیالات کی طاقت کسی اور انسانی طاقت سے عظیم تر ہے ۔جو لوگ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنی قومی ضرورتوں کے مطابق سوچنے کا تخیل رکھتے وہ جلد یا بدیر اپنا مقصد پا لیتے ہیں چاہے یہ مقصد انکی اپنی زندگی کے دوران حاصل نہ ہو ۔فدائین کے جذبے کے پیچھے یہی نظریہ عمل پیرا ہے انکو پتا ہوتا ہے ایک نا ایک دن وہ اپنا مقصد پا لیں گے چاہے وہ اسکو دیکھ نہ سکے بس وہ اپنے حصے کی شمع روشن کر جاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ اگر اپ نے قومی راستے میں پڑا ہوا ایک پتھر بھی آگے پہنچا دیا آپکا کام ہو گیا اگر اپ نے یہی نظریات اپنے بچوں تک پہنچا دیے آپکا کام ہو گیا جس طرح برزکوہی لکھتے ہیں کہ اب یہ سوچ نسل در نسل منتقل ہو گئی ہے ۔وقتی پسپائیوں سے ہمیں خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ۔

ایک دیوار بنانے کے لیے ہر اینٹ چاہے چھوٹی ہو یا بڑی آدھی ہو یا مکمل استعمال میں آتی ہے اسی طرح قوم کا ہر فرد چاہے وہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو قوم کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے عملی طور پر جو کچھ ہم نے کرنا ہے وہ ہم میں سے ہر ایک کی صلاحیتوں اور مواقع کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے لیکن
ہم میں حوصلہ اور صبر ہونا چاہیے تو ہم ایسے خیالات پر غور وفکر کر سکتے ایسی امیدیں پال سکتے ہیں جو جلد یا بدیر لوگوں کو متاثر کریں گی اور انکو عمل پر اکسائیں گی تب بے صبری اور مایوسی طاقت میں بدل جاے گی ۔احمد فراز کا ایک شعر ہے
شکوہ _ظلمت _شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اس لیے پہلا کام جو ہم نے جو کرنا ہے اپنے ذہنوں میں ان خیالات کے بارے میں بالکل واضح ہو جائیں جن کو ہم اچھا سمجھتے ہیں اور آہستہ آہستہ جس کے بس میں جتنا ہو قوم کی خدمت کرتا رہے کیونکہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اور پھر ایک دن ہم کو اس تبدیلی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا جو ہم لانا چاہتے ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔