کیس واپس لینے کیلئے لاپتہ راشد حسین کی والدہ پر سی ٹی ڈی حکام کا دباؤ

502

سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں سی ٹی ڈی حکام نے جبری لاپتہ راشد حسین کے گمشدگی کے حوالے سے اہلخانہ کو کیس واپس لینے کے لئے ایک درخواست پر دستخط کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ بی بی بس خاتون کے مطابق انہیں آج ایئرپورٹ تھانہ کراچی میں طلب کرکے راشد حسین کے حوالے سے ایک گمراہ کن اور جھوٹ پر مبنی حلفیہ بیان پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔

والدہ کے مطابق دستخط کرنے کے انکار پر انہیں سنگین نتائج اور دیگر بچوں کی زندگی کے حوالے سے دھمکی دی گئی۔

لواحقین کے مطابق جب انہوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے تیار کردہ بیان حلفی پر دستخط کرنے سے انکار کیا تو انہیں ایک کمرے میں بند کرکے ذہنی اذیت دی گئی ہے اور یہ کہا گیا کہ اگر انہوں نے اس بیان حلفی پر دستخط نہیں کیا تو ان کے دوسرے بچے جہاں کہیں بھی ہوں انہیں بھی نقصان پہنچایا جائے گا۔

لواحقین کے مطابق جب انہیں وہاں سے جانے دیا گیا تو کافی دیر تک گاڑی کے ذریعے بھی ان کا پیچھا کیا گیا۔

لواحقین کے مطابق پاکستانی حکام کی راشد حسین کی دبئی سے پاکستان کے کہنے پر گرفتاری اور پھر پاکستان حکام کی تحویل میں دینے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں لیکن آج روا رکھے جانے والے سلوک سے ایسا لگتا ہے کہ وہ راشد حسین کی جبری گمشدگی کے کیس کو دبانا اور گمراہ کن رنگ دینا چاہتے ہیں۔

جس سے ان کی زندگی کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں کیوں کہ سی ٹی ڈی حکام گذشتہ دنوں ایک جعلی مقابلے میں 5 جبری لاپتہ افراد کو قتل کرچکے ہیں اور دو جبری لاپتہ افراد کو ’دہشت گردی‘ کے جھوٹے مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔

راشد حسین کی والدہ کے مطابق پولیس کی طرف سے جعلی بیان حلفی میں لکھا گیا ہے کہ میں مسماہ بس خاتون زوجہ عبدالرسول ایک گھریلو خاتون ہوں اور میرا بیٹا عتیق الرحمن عرف راشد حسین عمر 23 سال جو کہ متحدہ عرب امارات میں ایک تعمیراتی کمپنی میں بطور ٹیکنیکل سپروائزر ملازمت کرتا تھا۔

اس جعلی بیان حلفی میں پولیس کی طرف سے جو جھوٹی کہانی بیان کی گئی ہے اس کے مطابق راشد حسین کو اس کی کمپنی کی طرف سے امارات سے دالبندین روانہ کیا گیا جو کہ ہمیں الیکٹرانک میڈیا سے معلوم ہوا اور دوسرے رشتہ دار جو کہ دبئی میں ہیں انہوں نے بھی ہمیں بتایا دالبندین آنے کے بعد میرا بیٹا گھر نہیں پہنچا اور نہ ہی اس سے کوئی رابطہ ہوا ہے بلکہ دبئی سے جب اس کو دالبندین بلوچستان روانہ کیا گیا اس کے اندراج کا پیپر بھی ہم نے منگوایا ہے۔

جعلی بیان حلفی میں راشد حسین کی والدہ کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ میرا بیٹا دالبندین سے غائب ہوا جس کا میں نے وکیل کو بتایا چونکہ کہ میں اردو نہیں بول سکتی ہوں میرے وکیل نے غلطی سے کراچی لکھ دیا جس کی وجہ سے کراچی میں ایف آئی آر ہوگئی۔

اب میں اپنی بھتیجی زاہدہ زوجہ شفیق الرحمان اور پوتی ماہ زیب دختر شبیر 12 سے 13 سالہ کے ہمراہ آئی ہوں چوں کہ میں اردو بول نہیں سکتی جن کے ذریعے اپنا بیان دے رہی ہوں اور یہی بیان میں نے مسنگ پرسنز کمیشن میں بھی ریکارڈ کرایا تھا۔ بس یہی میرا بیان ہے۔

لواحقین کے مطابق وہ سی ٹی ڈی کی اس عمل کو مسترد کرتے ہوئے راشد حسین کی بحفاظت بازیابی چاہتے ہیں۔

یاد رہے راشد حسین کو دو سال قبل 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارت سے گرفتاری بعد لاپتہ کردیا گیا تھا جس کے لئے امینسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے متحدہ عرب امارت سے اسکی منظرے عام پر لانے کی اپیل کی تھی جبکہ بلوچ نیشنل مومنٹ و ریلیز راشد حسین کمیٹی کی جانب سے یور سمیت دیگر ممالک میں راشد حسین کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گیے-

راشد حسین کی والدہ و بھتیجی ماہ زیب بلوچ گزشتہ دو سالوں سے کوئٹہ کراچی پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں اور اسلام اباد میں لاپتہ افراد کے دھرنے میں شامل ہوئے تھے –