بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 4245 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او کے وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء زاکر مجید بلوچ کی والدہ اور دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
زاکر مجید بلوچ کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں بیماری کی حالت میں بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہوں، گذشتہ مہینے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ ہم نے اسلام آباد میں احتجاج کیا جہاں حکومتی ارکان نے ہمیں یقین دہانی کرائی لیکن تاحال ہمیں کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے پیاروں کی بازیابی تک اور اس نا انصافی کیخلاف احتجاج کرتے رہینگے۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ آج جو ترقی کی بات کرتے ہیں کیا ترقی لاشوں اور بمباری کے ذریعے ہوتی ہے اگر بمباری ترقی ہے تو آج بلوچستان میں سب سے زیادہ ترقی ہورہی ہے کہ بھائی اور بیٹے کی لاش دے کر ترقی دی جارہی ہے۔ میزائل تجربوں سے لیکر بمباری، گولوں اور توپوں کے ساتھ ترقی دی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی اپنی حیثیت اور پہچان کو لے کر آج خود میں سوال بن گیا ہے، آخر کیوں کہیں مذہب کے نام پر قتل عام کہیں سماجی طبقات کا تفریق، کہیں اپنی حق حقوق کی مانگ پر زندان اور مسخ لاشیں دی جاتی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ آج مقبوضہ بلوچستان کا شاید ہی کوئی قصبہ دیہات ہو جو سنگین انسانی پامالی سے بچا ہو اور اب یہ سلسلہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی شروع ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کسی قوم کا اپنی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا جرم ہے تو پھر کیوں پاکستان جیسی ریاست اقوام متحدہ کا ممبر ہے اور اقوام کے تحفظ اور حقوق کے چارٹر پر اتفاق اور دستخط کرتا ہے۔