کوئٹہ: مستقلی احکامات کیلئے خواتین کا احتجاج، پولیس نے تشدد کیا – مظاہرین

396

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں درجنوں خواتین اساتذہ مستقلی احکامات کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ پیر کے روز موسلادھار بارش میں خواتین نے کوئٹہ پریس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ خواتین پر پولیس کے تشدد کے بعد خواتین نے بلوچستان اسمبلی کا رخ کیا۔

سماجی رابطوں کی سائٹس پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گلوبل ٹیچرز کے مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی ہورہی ہے۔

اس موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کیساتھ کئی مظاہرین کو حراست میں بھی لیا جاچکا ہے۔ تاہم حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف پیش نہیں کیا۔

مظاہرے میں شریک ایک خاتون ٹیچر فرزانہ کا کہنا تھا کہ ہم پچھلے پانچ دن سے احتجاج کر رہے ہیں۔ بار بار یقین دہانی کے باوجود محکمہ تعلیم نے انہیں مستقل احکامات جاری نہیں کیے۔

2015 میں بلوچستان میں تقریبا 1500 اساتذہ جن میں بیشتر خواتین کو عالمی شراکت برائے تعلیم (جی پی ای) پروگرام کے تحت بھرتی کیا گیا تھا۔ بلوچستان حکومت نے خواتین اساتذہ کی تقرری کے بعد صوبے بھر میں لڑکیوں کے 1000 اسکول بنائے تھے۔

خضدار کی ایک اور خاتون ٹیچر ثمینہ بی بی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہمارے معاہدے کے آرڈر ختم ہوگئے ہیں اور ہمیں گذشتہ چند ماہ سے کوئی تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ اساتذہ مظاہرے کے موقع پر اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آرہے ہیں۔

حکومت نے جی پی ای سے اتفاق کیا تھا کہ وہ بلوچستان میں منصوبے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرے گی۔ تاہم حال ہی میں صوبائی حکومت نے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔

وزیر تعلیم بلوچستان ، سردار یار محمد رند نے احتجاج کرنے والی خواتین اساتذہ کے کیمپ کا دورہ کیا تھا اور قریب ایک ماہ قبل انہیں مستقل احکامات کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خضدار کے ایک استاد فرعانہ نے شکایت کی کہ وزیر تعلیم کی یقین دہانی کے باوجود ہمیں کوئی احکامات نہیں مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام اساتذہ پانچ سال قبل پورے صوبے میں این ٹی ایس کے تحت میرٹ پر بھرتی ہوئے تھے۔

تاہم محکمہ تعلیم بلوچستان کے ذرائع نے بتایا کہ اساتذہ کے مستقل آرڈر کا معاملہ صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا امید ہے کہ صوبائی کابینہ اساتذہ کی تقرری کی منظوری دے گی۔