بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر رواں سال کے 8 مارچ کو ضلع مستونگ میں پانچ لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے حراستی قتل کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی۔
ریلی میں شریک خواتین اور مردوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر شہر کے سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں نوجوانوں کی قتل پر انصاف کا مطالبہ کیا۔
ریلی اور مظاہرے میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، آغا طاہر خان، آغا زبیر شاہ، زین گل بلوچ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ مارچ کو مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں سی ٹی ڈی نے پانچ نہتے اور کم عمر نوجوانوں کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ جمیل سرپرہ کے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو دو مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا اور میں نے اسے دیکھا تھا اور پھر اچانک انہیں ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پہلے آئی ایس آئی، ایم آئی اے اور ایف سی کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرکے مسخ لاشیں پھینک دی جاتی تھی اب سی ٹی ڈی کے ذریعے جعلی مقابلوں میں بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ گذشتہ روز پنچگور سے سید اویس شاہ کے والد میرے کمیپ میں آیا تھا اور اس کے بیٹے کو پنجگور سے لاپتہ کیا گیا تھا لیکن گذشتہ دنوں انکی گرفتاری سریاب لنک روڈ سے ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہینگے۔
سماجی اور سیاسی کارکن طاہر خان ہزارہ نے پانچ لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی جعلی مقابلے میں قتل کا مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کا نام پاکستان اور کام ناپاک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ آپ کے ریاست کے مجرم تھے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جاتی لیکن اس طرح قتل کرنے سے لوگوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔
اس ریلی اور مظاہرہ میں طالب علم رہنماء لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کی والدہ، لاپتہ کبیر بلوچ کی ہمشیرہ بھی شریک تھے۔