کوئٹہ: لاپتہ افراد کیلئے احتجاج، افراسیاب خٹک اور دیگر کی اظہار یکجہتی

356

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 4254 دن مکمل ہوگئے۔

خضدار سے لاپتہ  کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے لواحقین اور حقپان بلوچستان کے رہنماوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور بعدازاں کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

سابق سینٹر افراسیاب خٹک، سابقہ ایم این اے بشرہ گہور، سابقہ ایم پی اے جمیلا گیلانی، پشتون تحفظ موومنٹ کے زبیرشاہ آغا، اورنگ زیب، پی ایس ایف آزاد کے اورنگ مندوخیل، کلیم مندوخیل نے بلوچ میسنگ پرسنز کے کیمپ میں ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے خاندانوں سے ملاقات کی اور اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر افراسیاب خٹک، بشرہ گہور اور جمیلا گیلانی نے کہا کہ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا خلاف قانون اور ظلم و جبر کی انتہاء ہے۔ یہ عمل آئین اور قانون کے برخلاف ہے۔ آئین کی پامالی کرنے والے عناصر کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے، جبری طور پر نوجوانوں کا لاپتہ کیا جانا ریاست کی ناکامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے بازیابی اور اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہزاروں کی تعداد میں پشتونوں کو قتل  اور سینکڑوں جوانوں کو لاپتہ کیاگیا ہے۔ ہم بلوچ لاپتہ افراد کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس موقع پر ماما قدیر نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تمام اقوام ایک ہی پالیسی کے جبر کا شکار ہیں۔ بلوچوں اور پشتونوں سمیت سندھیوں اور دیگر اقوام کے افراد کی جبری گمشدگی اور لاشوں کا ملنا تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی کیمپ میں موجود بلوچ بیٹی اپنے بھائی کبیر بلوچ کے باحفاظت بازیابی کیلئے احتجاج کررہی ہے جن کے بھائی کو دیگر دو افراد مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے  ہمراہ بارہ سالوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ مظلوم اقوام کو ملکر ان نا انصافیوں کیخلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے، یہ اقدام پہلے اٹھانا چاہیے تھا لیکن آج حالات ہمیں خود راستہ بتارہے ہیں کہ ملکر آواز اٹھانے میں ہی کامیابی ممکن ہے۔