سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں دو مارچ بلوچ کلچرل ڈے کی مناسبت سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر کلچرل واک کا انعقاد کیا گیا۔
آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک کلچرل واک میں لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین، سیاسی و سماجی شخصیات، ادیب، شاعروں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
واک کے شرکاء نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں، پلے کارڈ اٹھاکر کراچی کے مختلف شاہراہوں سے مارچ کرتے کراچی پریس کلب پہنچ گئے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے شرکاء سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء وہاب بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بلوچ متحدہ محاذ کے کلثوم بلوچ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہم لاپتہ افراد کی لواحقین سے اظہار یکجہتی کے طور منا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کا دن ایرانی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے بلوچ مزدوروں کے نام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ ثقافت مزاحمت کی نشانی ہے، اور ہم اپنے لوگوں کے لئے مزاحمت کرکے کلچرل کو زندہ رکھنے کی عزم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک گھر میں ماتم تو دوسرے گھر میں ڈھول کی تھاپ پر رقص نہیں کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دن کی ابتداء بی ایس او کے ساتھیوں نے اپنے خون سے کیا ہے۔
مقررین نے کہا کہ بلوچ وطن پر جبر کے سائے تلے دو چھاپی کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ کلچرل کے پاسبان آج ریاست کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ بلوچ شہیدوں کی بہتے لہو نے بلوچ ثقافت کو زندہ رکھا ہے۔
اس موقع پر پر لاپتہ افراد کے لواحقین لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ، ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین محمد، لاپتہ محمد نسیم کی منگیتر حانی گل، لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، لاپتہ سلطان سعید کی ہمشیرہ اور کراچی سے دیگر اقوام کے لاپتہ لواحقین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی دن ہمارے بھائیوں اور بہنوں نے ہم سے اظہار یکجہتی کرکے ہمارے دکھ بانٹ لیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پیاروں کو لاپتہ کرنے والے بھی آج ہمارے دستار سر پر سجا کر بلوچ قوم سے جھوٹی اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دن بلوچ سے اظہارِ ہمدردی دکھانے والوں کا رویہ ہم نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران دیکھ لیے تھیں۔.
لاپتہ بلوچ افراد کی لواحقین کا کہنا تھا کہ آج ہمارے طور طریقے بدل گئے ہیں کل تک ہم بلوچ خواتین گھروں سے نہیں نکلتے تھے لیکن آج اپنے بھائیوں کی تلاش ہمارا دود ربیدگ بن چکی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر کلچرل واک میں بچوں کی بڑی تعداد ثقافتی لباس زیب تن کیے شریک تھی۔
کلچرل واک میں مشرقی بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی اور مغربی بلوچستان کے قتل کیے گئے مزدوروں کیلئے انصاف دو جیسے بینرز اور پلے کارڈز اٹھے گئے تھے۔ جبکہ کراچی سے سندھی، مہاجر لاپتہ افراد کے لواحقین بھی واک میں شریک تھے۔