بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ہفتے کے روز دوپہر کو ایک مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرے میں خواتین و بچوں سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کے علاوہ لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی، طاہر خان ہزارہ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، ماما قدیر بلوچ، بی ایس او کے چیئرمین منظور جہانگیر، جمعیت کے رکن بلوچستان اسمبلی ایم پی اے زابد ریکی، ایم پی اے ثناء بلوچ، احمد نواز بلوچ، شکیلہ نوید دہوار، میڈم شمائلہ اسماعیل اور دیگر شریک تھے۔
اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں فوج کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں، بلوچستان میں طاقت کا استعمال ریاست کے لیے مفید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالوں سے لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے۔
کبیر، مشتاق اور عطاء اللہ کے لواحقین نے کہا کہ آج 12 سال کا طویل عرصہ مکمل ہوگیا ہے لیکن وہ تاحال لاپتہ ہیں، ان تینوں کو 27 مارچ 2009 کو سیشن کورٹ خضدار کے سامنے سے جبری طور پر اغواء کرکے لاپتہ کیا گیا تھا۔
کبیر، مشتاق اور عطاء اللہ کی جبری گمشدگی کے خلاف عدالت، حکومتی کمیشن و دیگر تمام قانونی طریقے استعمال کرنے کے علاوہ احتجاج کے بھی تمام ذرائع استعمال کئے گئے لیکن اس کے باوجود وہ بازیاب نہیں ہوسکے ہیں اور نہ ہی ان کے متعلق خاندانوں کو کوئی معلومات فراہم کئے گئے۔
جبری طور پر لوگوں کو سالوں تک لاپتہ کرنا انسانیت کی خلاف سنگین جرائم میں شامل ایک بدترین جرم ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور علمبردار اس ناانصافی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا نوٹس لیں۔
لواحقین نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کے بازیابی کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ لواحقین سالوں سے اذیت سہ رہے ہیں۔