بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کیے گئے بیان میں سابق چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو سات سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے کے باوجود اُن کی عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلباء رہنما کی بازیابی کے لیے انسانی حقوق کے اداروں کی یقین دہانیوں کے باوجود تاحال انہیں منظر عام پر نہ لانا انسانی اقدار کے منافی ہے۔
ترجمان نے کہا آج سے سات سال قبل تنظیم کے سابق چیئرمین اور بلوچستان کی معروف طلباء رہنماء زاہد بلوچ کو کوئٹہ میں تنظیمی ساتھیوں کے سامنے ریاستی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔
زاہد بلوچ کی باحفاظت بازیابی کے لیے تنظیم کی جانب سے ملکی و غیر ملکی سطح پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے جبکہ اُن کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی میں 46 روز تک تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگایا گیا جسے انسانی حقوق کے اداروں کی یقین دہانی پر ختم کر دیا گیا۔ سات سال کا طویل دورانیہ گزرنے کے باوجود تاحال انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا اور ریاستی اداروں نے انہیں جبری طور پر پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ زاہد بلوچ پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے بلوچ طلبا تنظیم سے تعلق رکھتے تھے جو جمہوری طرز جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ریاست کی جانب سے تنظیم پر پابندی کے بعد زاہد بلوچ سمیت سینکڑوں تنظیمی رہنماؤں اور کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور درجنوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔ گذشتہ دہائی سے تنظیم اور تنظیمی کارکنان پر ریاستی کریک ڈاؤں عروج پر ہے جبکہ دوسری جانب انسانی حقوق کے اداروں کو بارہا اپیل کے باوجود انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی نہایت ہی تشویشناک ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی بلوچستان میں جاری سنگین غیر انسانی جرائم کے خلاف خاموشی اور غیر سنجیدگی ایک عظیم انسانی المیے کا باعث بن رہی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنان کو سالوں پابند سلاسل رکھنا ایک انسانی المیہ ہے جس کے لیے یو این ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ اس کی کردار پر سوال ہے۔ زاہد بلوچ اور شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں سیاسی کارکناں برسوں سے زندانوں میں پابند سلاسل ہیں اور تاحال اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس بیان کے توسط سے ہم ملکی اور بین القوامی سطح پر کام کرنے والے تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو طویل عرصہ مکمل ہونے پر اُن کی با حفاظت بازیابی کے لیے یو این ہیومن رائٹس کونسل کو خط ارسال کی جائیں اور اِس حوالے سے تنظیم کی جانب سے بھی اقوام متحدہ کی اس کونسل کو خط ارسال کی جائے گی۔