چیئرمین زاہد بلوچ کی طویل جبری گمشدگی انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی وجود پر سوالیہ نشان ہے – بی این ایم

287

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو سات سال مکمل ہونے پر کہا کہ علم اور مضبوط سیاسی نظریہ سے لیس بلوچ طلباء تنظیم کے سربراہ کی دن کی روشنی اور آنکھوں کے سامنے جبری گمشدگی انسانی حقوق کی دعویدار عالمی و علاقائی تنظیموں کی وجود پر ایک سوالیہ نشان ہے، بالخصوص ایشین ہیومین رائٹس کمیشن جس کی یقین دہانی پر بی ایس او نے اپنا بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کی تھی۔

ترجمان نے کہا زاہد بلوچ ایک نوجوان طالب علم رہنما کی حیثیت سے قومی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہے تھے۔ پاکستان نوجوانوں کومتحرک کرنے،انہیں شعور کے ہتھیار سے لیس کرنے اور انہیں واضح سمت دینے سے خائف تھا۔ اس کا حل دوسرے نوجوانوں کی طرح زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کی صورت میں نکالا گیا۔ لیکن دشمن اس حقیقت سے واقف نہیں کہ حق و سچائی کی آوازوں کو زندانوں میں بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ زاہد ایک متحرک سیاستدان ہیں۔ اس نے نوجوانوں کو متحرک کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے اور اسے یاد کیا جارہا ہے۔ زاہد بلوچ کی آواز آج بھی زندانوں کی دیواروں کو پاش پاش کرکے نہ صرف بلوچ قوم کے ہر کوچہ و دمگ میں گونج رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بلوچ کی آواز میں ان کی آواز شامل ہے۔

انہوں نے کہا زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی بلوچستان میں سیاسی و جمہوری آوازوں کو سلب کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرکے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکناں سمیت ہزاروں افراد کو اغوا کرکے جبری لاپتہ کیا ہے۔ بی ایس او کے اس وقت کے چیئرمین زاہد بلوچ اور بی این ایم کے صدر واجہ غلام محمد بلوچ سمیت سینکڑوں رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی جیسے واقعات پاکستان جیسی غیر فطری ریاست میں ہو سکتی ہیں کیوں کہ موجودہ دنیا میں سیاسی سربراہوں کا قتل عام اور جبری گمشدگی کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زاہد بلوچ سمیت کئی سیاسی رہنما اور کارکن سالوں سے فورسز کی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ کئی رہنما فورسز کے ہاتھوں اغواء کے بعد قتل کیے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ، غفور بلوچ، رمضان بلوچ، ذاکر مجید اور شبیر بلوچ سیاسی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی گمشدگی اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارو ں کے لیے پاکستان کی طرف سے ایک چیلنج ہے۔ یوں پاکستان دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انسانی حقوق کے تمام قوانین کو روند کر بلوچ نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے بی ایس او آزاد کے اس وقت کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوہر کی تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کو ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا لیکن آج سات سال گزرنے کے باوجود وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کرسکی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین پہلے ہی پاکستانی اداروں اور ان کی بنائی گئی کمیشن کے سامنے حاضر ہونے سے دستبردار ہوچکے ہیں، کیوں کہ وہاں انہیں جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن اپنے وعدوں پر عمل کرکے زاہد بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ ذمہ دار ادارے پر لوگوں کا بھروسہ قائم رہے۔