نوید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے زندگی کے حوالے سے تشویش ہے – ماما قدیر

165

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4246 دن مکمل ہوگئے۔ کامریڈ اسرار بلوچ، محمد امین ایڈوکیٹ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے متعلق حکومتی پالیسی پہلے جیسے ہی ہے۔ گذشتہ دنوں چند لوگوں کو رہا کیا گیا لیکن تین دن میں چھ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ افراد میں تین نوجوانوں ک تعلق نوشکی سے، دو کا تعلق سبی سے اور ایک کا تعلق تربت سے ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ چھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نوید بھی شامل ہے۔ پوزیشن ہولڈر نوید بلوچ یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں مائننگ ڈیپارنمنٹ کے آٹھویں سمسٹر کے طالب علم ہیں، جن کا تعلق بلوچستان کے شہر تربت شہرک سے ہے۔ نوید بلوچ آخری سال کا طالب علم ہے اور فائنل ایئر پروجیکٹ کے غرض سے پانچ دن پہلے کوئٹہ آیا جہاں انہیں 9 جنوری 2021 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

جبکہ سبی کے علاقے بادرا سے زرین خان مرگیانی ولد عزیزو کو فورسز کیمپ میں حاضری کیلئے بلانے کے بعد لاپتہ کیا گیا اور سبی ہی کے علاقے اللہ آباد روڑ سے ایاز بنگلزئی کو ان کے گھر کے سامنے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں زیر حراست اور لاپتہ افراد کے ماورائے قانون جعلی مقابلے میں قتل کیے جانے کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہے جہاں نہ طالب علم اپنے پروجیکٹ کی غرض سے نقل و حرکت کرسکتے ہیں اور نہ شادیوں میں شرکت کیلئے اپنے علاقوں کو جاسکتے ہیں۔ اسی طرح فورسز کیمپوں میں لوگوں کو حاضری لگانے کی پابندی کا بھی سامنا ہے جو ایک مقبوضہ خطے کی عکاسی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسخ شدہ لاشیں پھینکنے اور لاوارث قرار دینے کے بعد لوگوں کو ڈرائی انداز میں جعلی مقابلے میں قتل کیا جارہا ہے۔ لیکن اب بھی علاقائی اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں۔