میرے گھر میں کوئی مرد ہی نہیں – ذکیہ بلوچ 

544

میرے گھر میں کوئی مرد ہی نہیں

تحریر : ذکیہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

صحن میں چار پائی پے لیٹی ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے ، میں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اتنے دنوں بعد امید کی اک کرن نظر آئی۔ اس کے آنے کی اک امید سی جگی تھی میں انہی سوچوں میں گم تھی اور دوسری طرف دن بھر کے بھاگ دوڑ او تھکاوٹ کی وجہ سے مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا اور میں اسی طرح چار پائی پہ لیٹی رہی اور نیم نیند کی حالت میں تھی، اُدھر امی باورچی خانے میں شام کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی امی نے باورچی خانے سے آواز دی اور بولا جا بیٹا دیکھ دروازے پہ کون ہے۔ لیکن میں تو اپنی دنیا میں کھوئی تھی اتنے میں دوازے پر پھر سے زور دار دستک ہوئی اس بار امی چیخ کے باہر آئی اور مجھے زور سے آواز دی کہ بیٹا کیا ہوا تمہیں، دروازے پر کب سے دستک ہو رہی ہیں دیکھ زرا کون ہے جسے اتنی رات کو بھی سکون اور چین نہیں۔ امی کی اس زور دار چیخ سے میں اپنی کھوئی ہوئی دنیا سے واپس لوٹی اور ایسے جھٹکے سے اٹھی جیسے میں خواب سے بیدار ہوئی ہوں، امی کو ہاں کہتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے گئی اور دروازہ کھولا تو دروازے کے کونے میں کوئی شخص کھڑا تھا۔

اندھیرا ہونے کی وجہ سے میں اسے ٹھیک طرح سے دیکھ نہیں پا رہی تھی، لیکن میں نے اس سے پوچھا کون ہو؟ تو اس نے میرے سوال پر ایک قدم میری طرف بڑھایا حالانکہ وہ مجھ سے تھوڑی سی فاصلے پر تھا لیکن اس کے ایک قدم آگے بڑھانے سے وہ روشنی کی احاطے میں آگیا جس سے میں واضح طور پر اُسےدیکھ سکتی تھی۔

جیسے ہی اس پر روشنی پڑی، میری نظراس کے پیروں پے پڑے جو نہایت میلےتھےاور اسکے بڑے بڑے ناخن اور عجیب بات تھی کہ اسکے پیروں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ جوں ہی میری نظر اسکے چہرے کی طرف پڑی، اسکی حالت بد سے بدتر تھی میلے کچلے اور پھٹےہوئے کپٹرے، بڑے بال، لمبی سی داڑھی پر آنکھیں جانی پہچانی سی تھیں میرے لب خاموش تھے، پر میری آنکھیں اس شخص کے چہرے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔ وہ مجھے یوں دیکھ کر مسکرا رہا تھا، یہ مسکراہٹ بھی جانی پہچانی سی تھی۔

ایک لمحے کے لیے دل نے کہا یہ وہی ہے، یہ مسکراہٹ یہ آنکھیں وہی ہیں، وہ آگیا ہے ہاں یہ وہی ہے پر دوسرے پل ہی میں نے خود پے قابو کر لیا اور لرزتے ہوئے دل کے ساتھ اس سے پوچھا کون ہواس نے کوئی جواب نہیں دیا بس وہ مسکرائے جا رہا تھا اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا مجھے نہیں پہچانا؟ میں تیرا بھائی ہوں!
میرا سارا جسم لرزنے لگا اور میری آنکھوں کے سامنے آنسو کا پردہ حائل ہوگیا میرے قدم خود بہ خود اسکی طرف اُٹھنے لگے اور بھاگتے ہوے ایک چیخ کے ساتھ اس سے لپٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی، وہ میرے سر پے ہاتھ رکھ کر مجھے دلاسا دے رہا تھا کہ خاموش ہوجا میری بہن دیکھ میں واپس آگیا ہوں پر میں بس روئے جا رہی تھی۔

اتنے میں اندر سے امی کی آواز آئی کہ کیا ہوا بیٹی دروازے پہ کون ہے، جواب ناپا کر امی پریشان ہو کر باہر آگئی امی مجھے اس حالت میں دیکھ کر وہیں ساکت ہوگئی۔ لیکن جیسے ہی بھائی نے نظر اٹھا کر امی کو دیکھا تو ایک بازو سے مجھے تھام کر دوسرا بازو امی کے لیے پھیلایا اور اک بھری آواز میں امی کو پکارا دیکھ امی میں تیرا حسن۔

یہ دیکھ کر امی بھی بھائی کے ساتھ لپٹ گئی اور زار قطار رونے لگی بھائی نے ہم دونوں کو ساتھ میں گلے سے لگایا اور وہ بھی ہمارے ساتھ زور قطار رونے لگی۔

ہماری رونے کی آواز سن کر آس پاس کے پڑوسی بھی گھروں سے باہر آئے اور یوں ہمیں روتے ہوئے اس حالت میں دیکھ کر وہ یہ سمجھ گئے یہ ان دس سالوں کا درد ہے جس کی گونج پورے محلے کو سنائی دے رہی ہے۔

اور یہ لوگ بھی ایک دوسرے سے سرگوشی کرتےہوتے کہہ رہے تھے کہ دیکھ آمنہ خالہ کا بیٹا حسن آگیا ہے وہ بھی دس سال بعد، آمنہ آپا کی دعائیں قبول ہوگئیں، بچاری نے بڑی دکھ بھری زندگی کاٹی ہے۔ شکر ہے اسکا بیٹا آگیا وغیرہ وغیرہ۔ ہر کسی کے لب پہ بس حسن کا نام تھا ہر کسی کی آنکھیں نم تھی۔ کوئی خوشی سے رو رہا تھا تو کوئی دس سال کے تکلیف کو یاد کر کے رو رہا تھا۔

امی نے یوں اس طرح لوگوں کو جمع ہوتے ہوئے دیکھ کر خود کو سنبھالا اور بھائی سے الگ ہوکر مجھے بھی بھائی سے الگ کرنا چاہا پر میں یوں ہی لپٹی رہی اور یوں ہی روتی رہی۔ میں ان دس سالوں میں اپنے بھائی کی خوشبو سے محروم رہی ہوں میں اس کی جسم کی خوشبو کو محسوس کرنا چاھتی تھی۔

میں نے ان دس سالوں میں اپنے بھائی کے جدائی میں بڑے درد تکلیف اور اذیت سی زندگی گزاری ہے۔ میں اس سے لپٹ کر ان دس سالوں کے درد و تکلیف کو بھلانا چاھتی تھی۔

میں نے دس سالوں سے اپنے بھائی سے ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ میں ان دس برسوں کی گزرے ہوئے لمحے لمحے کی ہر بات بتانا چاہتی ہوں کہ ان دس سالوں میں تیرے جانے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کیا ہوا ہے، ہر بات بتانا چاتی ہوں ہر درد و ہر تلکیف بتانا چاھتی ہوں۔
میں اسے بتانا چاھتی ہوں کہ جب کسی بہن کا بھائی لاپتا ہوتا ہے تو اسکی بہن کی زندگی کن کن اذیتوں سے گزرتا ہے۔ جب کسی ماں کےبیٹے کو اسکے سامنے سے گھسیٹ کر کسی نامعلوم قید خانے میں ڈال دیتے ہیں، تو اس ماں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، جب کسی باپ کا واحد سہارا اسکا بیٹا لاپتا ہوتا ہے تو اسکی زندگی کیسی ہوتی ہے۔

کیسے ہمارا مسکراتا گھر تمھارے جانے سے اجڑ گیا اور کیسے ہم نے ان دس سالوں میں ویران سی زندگی گزاری ہے۔ میرے بھائی جس رات آپکو ریاست پاکستان کے خفیہ ادارے ہمارے سامنے گھسیٹ کر اور مار پیٹ کر لے گئے۔ اس لمحے سے ہماری زندگی اندھیری ہوگئی۔ گو کہ اس رات کا سارا اندھیراپن سمٹ کر ہماری زندگی میں چھا گئی، ہماری زندگی کی ساری خوشیاں، سارے رشتے ، چین سکون ہر چیز پہ اندھیرا چھا گیا –

آپ کے لاپتہ ہونے کے بعد بابا نے ہر ممکن کوشش کی آپکا پتہ معلوم کرنے کی، آپ کو اس قید سے نکالنے کی، پر بابا کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ بابا نے ہر وزیر, ہر میر وٹکری کے در پہ دستک دیا اور فریاد کیا کوئی انہیں دلاسا دیتا تو کوئی صاف جواب دیتا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ بس ہر کسی نے انکو نا امیدی کی سوا کچھ نہیں دیا۔

بابا نے عدالت میں بھی کیس کیا لیکن ہم کئی سال تک عدالت کو یہ باور نہ کرا سکے کہ آپ کو لاپتا کرنے والے پاکستان کے خفیہ ادارے ہیں۔ یہ عدالتیں کبھی آپ کو فراری کیمپ جانے والوں میں شمار کرتے تو کبھی کہتے تھے کہ آپ کا بھائی افغانستان میں ہے۔ ہر بار وہ ہماری ہر دلیل کو ردکرتے رہے اور ہمیں نا امید کرتے رہے۔
ایک آپ کے دور جانے کا غم ، دوسرا ہر طرف سے نا امیدی، گھر کی ساری زمہ داری و ہر پریشانی نے بابا کی کمر توڑ کر رکھ دی وہ ہمارے سامنے تسلی میں تھا تاکہ ہماری حوصلے نا ٹوٹیں لیکن اکیلے میں چپکے سے آپ کے تصویر کو گلے لگا کر رورتا تھا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کیاکہ بابا کا حوصلہ بنوں لیکن میں نا بابا کا حوصلہ بن سکی نا میں انکا درد بانٹ سکا ایک وقت ایسا آیا کہ ہر زمہ داری کو ہر نا امیدی کو ہر تکلیف کو میرے لیے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں اللہ پاک سے دعا کر تی رہی تھی کہ تو نے میری بھائی کو مجھ سے دور کر کے مجھے تکلیف میں ڈالا ہے اب میری بابا کو سلامت رکھ اور مجھے اس تکلیف سےنجات دلا پر میری دعا قبول نہیں ہوئی اور میرے بابا کو بھی مجھ سے چھین لیا۔

آخری بار میں بابا کے سرہانے پر بیٹھی ہوئی تھی جب بابا نے آخری بار میری طرف دیکھ کر مجھے کہا بیٹا میں ہر زمہ داری تیرے سر چھوڑ کے جارہا ہوں۔ امی کا خیال رکھنا اور بھائی کی تلاش جارہی رکھنا، ایک بھری ہوئی آہ کے ساتھ صرف اتنا کہا کہ کاش میں اس دنیا سے جانے سے پہلے اپنے لخت جگر کو دیکھ لیتا تو مرنے میں آسانی ہوتی۔ پھر یوں ہی ان کے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور پھر وہ مجھے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلاگیا۔

کل تک جو آنسو صرف بھائی کے لیے تھے آج ان آنسوں میں بابا کا حصہ بھی آگیا۔ میری دنیا بلکل ختم ہوگئی تھی، میرے پاس جینے کی کوئی وجہ نہیں تھا، پر مجھے امی کے لیےزندہ رہنا تھا میں بابا کا حوصلہ تو نہ بن سکی پر امی کاحوصلہ بنا تھا۔

پہلے بھائی اور اب بابا کے جانے کے بعد میرے سر کا دوپٹہ چھین چکا تھا۔ کسی کو ہماری حالت پر ترس آتا تو کوئی ان سب کی ذمہ دار آپ کو ٹہرا کر چلاجاتا تھا۔ ہمارا درد اس دنیا کے لیے بس ایک تماشہ بن چکا تھا۔

بابا کے بعد ہماری مالی حالت بھی دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ بابا نے جو کچھ کمایا سب کیس اورعدالتوں پر خرچ ہوگیا۔ سوائے ایک گھر کے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ گھر کا چولہا جلانے کے لیے میں نے نوکری کی تلاش شروع کردی۔ جب نوکری ملی تو پڑھائی چھوڑ دی کیونکہ اب میرے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے۔ لیکن تنخوا بس اتنا تھا کہ مشکل سے ہمارا پیٹ پل رہا تھا۔ لیکن ہر مہینے آپ کے کیس کے لیے ایک بھاری رقم وکیل کو بھی دینا تھا تو اس لیے امی نے بابا کے ہاتھوں کی نشانی وہ گھر بھی بیچ دیا اورہم سڑک پر آگئے۔ کچھ دن رشتہ داروں نے جگہ دی پر ان کی گھر رہنے کی قیمت یہ تھی کہ آپ تلاش کو بھول کر خاموش بیٹھ جاؤ پر یہ ناممکن تھا تو ہم کرایہ کے گھر میں آگئے۔

دن بہ دن میں ہر درازے سے نا امید ہوگئی نا کسی کو میری بات پہ یقین تھا نا کوئی میری فریاد سننے والا تھا۔ بس ایک راستہ بچا تھا میرے پاس جہاں سے میں دنیا کو اپنی فریاد سنا سکتی تھی وہ ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ جہاں سے میں اپنی فریاد لوگوں کو تک پہنچا سکتی تھی۔ پہلے تو مجھے رشتہ داروں نے وہاں جانے سے روکا کہ ہماری عزت کا سوال ہے۔ تمھاری تصاویر دنیا کے سامنے ہونگے۔ ہر کسی نے مجھے کیمپ جانے سے روکا، لیکن ان سب کی مخالفت سے بڑھ کر تمھاری جان کا سوال تھا میں خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔

جب پہلی بار ماما قدیر کے کیمپ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تو پہلی بار پوری دنیا کے سامنے میں نے اپنا نقاب اتار دیا۔ صرف اس لیے کہ دینا میری آواز سنے میری درد کو سمجھے بلوچستان میں ہوئے اس ظلم کوروک سکے، اس کے لیے میں نے پریس کانفرنس کیے، احتجاج کیا، روڈوں پہ روئی، فریاد کیا پر کچھ نہیں ہوا۔

جب میں گھر سے باہر نکلتی تھی تو مجھے لوگوں کےنظر چبھتے تھے۔ مجھ پر طعنہ کسی کی جاتی تھی۔ کوئی مجھے ڈرامہ باز کہہ کر بلاتا تھا یا ان کو میرا درد ایک ڈرامہ لگتا تھا اور کوئی مجھے بھارت کا ایجنٹ کہہ کے پکارتا تھا۔ کئی دھمکی آمیز فون آئے مجھے کہ ماما قدیر کی کیمپ مت جاو، احتجاج مت کرو اگر تم نے احتجاج کیا تو تمھارے بھائی کو مارڈالیں گے وغیرہ۔

ان احتجاجوں کی وجہ سے خونی رشتوں نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔ یہاں تک اس رشتے نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا جس رشتے کو آپ نے میرے ساتھ اس لیے منسلک کیا تھا تاکہ وہ زندگی کے ہر مشکل میں میرا ساتھ دے لیکن اس نے بھی میرا ساتھ چھوڑدیا۔ میں اکیلی ہوگی اس دنیا میں۔

میرے زندگی کا ایک ایک لمحہ میرے لیے تکلیف دہ تھے پر وہ دن مجھ پر اک قہر بن کے نازل ہوئی۔ جب مجھے پتا چلا کہ ایک مسخ شدہ لاش ملی ہے اور تمھارے کچھ دوستوں نے مجھے فون کر کے کہا ہمیں شک ہے وہ حسن ہے تم آکر ایک بار شناخت کر لو یہ سن کر میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں زمین پہ گر گئی۔ امی نے میرے حالت سے اندازہ کر لیا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا حسن کے بارے میں کوئی بری خبر آئی ہے؟ میں کچھ کہے بنا اس سے لپٹ کر رونے لگی امی نے مجھے دلاسہ دے کر کہا میرا بچہ خاموش ہوجا، حسن کو آج ہم سے جدا ہوئے 8 سال ہوگئے ہیں۔ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں کچھ نہیں پتا اگر اس کی زندہ ہونے کی خبر آئی ہے تو میں اللہ پاک کا شکر گزار ہوں اگر اسکی موت کی خبر آئی ہے تو میں اس ازیت بھری انتظار سے نجات پا کر سکون کی موت مرسکوں گی۔ میں نے خود کو سنبھالا اور ہم گھر سے نکل کر ایدھی سینڑ کے طرف روانہ ہوئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بھائی کے دوست ہمارے انتظار میں کھٹرے تھے۔ مجھے اشارہ کیا ایک دروازے کی طرف میرے پیر کانپ رہے تھے میں دل میں دعا کر رہی تھی کہ وہ بھائی نا ہو۔ ہم دروازے پر پہنچے تو امی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر مجھے کہا بیٹا اب آگے کا ہمت صرف تمھارا ہے۔ ایک بوڑھی ماں اس سے زیادہ ہمت نہیں کر سکتی اپنے بیٹے کو ایسے حالت میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں اندر پہنچی تو چار پائی پر ایک شخص کی لاش رکھی ہوئی تھی، ایک آدمی اس لاش کے پاس جاکر کھٹرا ہوگیا، اتنے میں بھائی کے دو دوست بھی اندر آگئے۔ وہ بس خاموش نگاہوں سے مجھے ہمت دے رہے تھے، جب میں اس لاش کے سرہانے تک پہنچ گیا تو اس آدمی نے لاش کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو اس شخص کا چہرہ صحیح طرح پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ اس پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ اسے دیکھ کر میری حالت خراب ہوگئی پر یہ سب دیکھ کر مجھے تسلی ہوگئی کہ وہ میرا بھائی نہیں ہے۔ میں نے ایک دم سے چیخ کر کہا یہ میرا بھائی نہیں ہے تو اس آدمی نے کہا اس کی جیب سے ایک شناختی کارڈ ملا ہے۔ میں آپ کو دیکھاتا ہوں شاھد آپ اس کو پہچان لیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چلا گیا لیکن میرا دم گھٹ رہا تھا میں چلا چلا کے کہہ رہی تھی وہ میرا بھائی نہیں ہے، خدا کے لیے مجھے اس امید میں زندہ رہنے دو کہ میرا بھائی زندہ ہے۔ میرے زندگی میں اسکے تلاش کے سوا کچھ نہیں، میری زندگی کا وہ آخری سہارا ہے، خدا کے لیے اس کو میرے لیے زندہ رہنے دو اور وہ زندہ ہے اور میں یہی کہتے ہوئے بے ہوش گئی۔

جب میری آنکھیں کھلیں تو میں اپنے کمرے میں تھی اور سامنے امی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے امی کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو امی نے مجھے کہا تسلی رکھ وہ تیرا بھائی نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا لیکن میری آنکھوں سے آنسوٹپکنے لگے اس لیے کہ وہ میرا نہیں پر کسی اور کا تو بھائی تھا۔

اپنا بھائی کھونے کا درد کیا ہوتا ہے یہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔ ان دس سالوں میں جس درد اور تکلیف سے ہم نے زندگی گزاری ہے شاید وہ میں لفظوں میں بیان نا کر سکوں پر ہر تکلیف ہر درد میں اس لیے کھڑی رہی کیونکہ مجھے یقین تھا آپ ضرور آو گئے اور دیکھو آج آپ واپس آگئے۔

یہ کہتے ہوئے میں نے اپنا سر بھائی کے سینے سے اُٹھایا اور اسکے چہرے کی طرف دیکھنے والا ہی تھا کہ پیچھے سے امی نے مجھے اسطرح زور سے کھینچا کہ میں بھائی سے جدا ہوگئی اور بھائی سے جدا ہوتے ہی ایک چیخ کے ساتھ میں نے خود کو چار پائی پہ بیٹھا ہوا پایا اور امی کھانے کا تشت لیے چار پائی کے قریب کھٹرا مجھے دیکھ رہی تھی کہ میں نے پوچھا کہ امی بھائی کہاں ہے؟ جب تک امی جواب دیتی میں نے بنا دوپٹے کے دوڑ کر دروازہ کھولا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے موڑ کر امی سے پوچھا امی میں آپ اور بھائی یہاں کھڑے تھے پر اب بھائی نہیں ہے۔ وہ کہاں چلے گئے امی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر کے اندر لے آئی اور کہا بیٹا چلو کھانا کھا لو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے میں سمجھ گئی میں نے پھر کوئی خواب دیکھا ہے۔ وہ حقیقت میں تو کبھی لوٹ کر نہیں آتے وہ تو بس خوابوں میں آتے ہیں اور میں خاموشی سے امی کا ہاتھ چھوڑ کر واپس چار پائی پہ سوگئی تاکہ میں واپس اسے خواب میں دیکھ سکوں۔

آج 8مارچ کو دنیاخواتین کی آزادی کی مناسبت سے منا رہی ہے لیکن میں اپنی اندھیری دنیا کو ان چند لفظوں میں بیان کرکے اس مہذب دنیا سے پوچھنا چھاتی ہوں کہ بلوچستان کے خواتین اپنی آزادی کس سے مانگے۔ جہاں پاکستان جیسے ریاست میں اس کے گھر کے مرد ہی آذاد نہیں وہاں وہ اپنی حقوق کی جنگ کیسے لڑیں اور کس سے لڑیں۔
کیونکہ آج خواتین اپنی آزادی کی جنگ اپنے گھر کے مردوں سے اور اس معاشرہ سے لڑ رہے ہیں۔ پھر پاکستان جیسے ریاست کا معاشرہ میرے اپنوں کا قاتل ہے اور میرے گھر میں کوئی مرد ہی نہیں جن سے میں آزادی مانگوں بلکہ میں تو اپنے گھر کے مردوں کی آزادی کا طلب گار ہوں۔ میری آزادی میرے تکلیفوں کے اختتام پہ ہوگی مجھے 8مارچ کی آزادی نہیں میرے اپنوں کی آزادی درکار ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔