پنجاب کے شہر ملتان میں زیر تعلیم نوجوان کو پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
بلوچستان میں جبری گمشدکیوں کے واقعات میں ایک دفعہ پھر تیزی دیکھنے میں آرہا ہے، سبی سے مالداری کے شعبے سے وابسطہ شخص زرین خان مرگیانی کے جبری گمشدگی کے بعد کوئٹہ سے طالب علم نوجوان کے گمشدگی کی خبر سامنے آئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق تربت کا رہائشی نوجوان نوید ولد قدیر امتحانات دیکر کوئٹہ پہنچا تھا جہاں اس کو پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
ذرائع کے مطابق نوید ملتان میں کیمیکل انجینئر کا طالب علم تھا، امتحانات دینے کے بعد کوئٹہ سے تربت کی جانب سفر کررہا تھا کہ انہیں لاپتہ کیا گیا۔
دو روز قبل مستونگ کے علاقے اسپلنجی میں سی ٹی ڈی حکام نے پانچ افراد کے جھڑپ میں مارے جانے کا دعوی کیا تھا تاہم بعد ازاں ٹی بی پی ذرائع سے معلوم ہوا کہ مذکورہ تمام افراد زیر حراست افراد تھے۔
سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے مذکورہ واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کہا ہے کہ لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے۔