مری قبیلے کے درآمد شدہ چند رسومات پر تنقیدی جائزہ – جی آر مری بلوچ

483

مری قبیلے کے درآمد شدہ چند رسومات پر تنقیدی جائزہ

تحریر: جی آر مری بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تنقید ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا ہے۔ تنقید کسی چیز کی بہتری کیلئے کیا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر موجود خامیوں کو نکال کر ان میں بہتری لایا جا سکے۔ اصلاحی تنقید وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی چیز میں بہتری لانا چاہتے ہوں۔ یہاں میں اپنے بلوچ قبیلے خاص کر مری قبیلے پرایک تنقیدی جائزہ لے رہا ہوں تاکہ ان کے اندر چند درآمد شدہ رسومات کا خاتمہ ہو سکے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کل سچ کو ثابت کرنے اور کسی چیز میں بہتری لانے کیلئے تنقید نگار کو خود بہت سی مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔

سقراط معاشرے کو سُدھارتے سُدھارتے بالآخر خود ہی زہر پی لیا۔ آج کل ہمارے ادیب اور دانشور اس طرح کے صورتحال کا مقابلہ کرنے سے کتراتے ہیں اور معاشرے پر مسلط کردہ رسومات کے خاتمے کیلئے لکھنے اور آواز اٹھانے کیلئے خاموش تماشائی بنکر بیٹھے ہیں۔ کیونکہ یہ معاشرہ کچھ اسطرح ہے کہ یہاں اکثر تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ اور کسی غلطی کے اصلاح کرنے پر خود تنقید نگار کو غلط گردانا جاتا ہے۔

اگر اصلاحی سوچ پر حامل کوئی شعور یافتہ شخص اپنے معاشرے کی بہتری کیلئے سوچتا ہے تو کہتے ہیں یہ کتابیں پڑھ کر پاگل ہوا ہے حالانکہ کتابیں پڑھنے سے انسان کے اندر شعور برپا ہوتا ہے۔ کتابوں سے دوستی ہی انسان کی سوچ کو یکسر بدل دیتا ہے۔ جس سے فرسودہ رسم و رواج پر مقید انسانی سوچ ایک ارتقائی سوچ میں تبدیل ہو کر انسان کو غلامی سے نجات دلانے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

اس جدید دور سے فائدہ اٹھا کر دنیا کے دیگر اقوام نے ترقی کی ہے۔ مگر بدبختی سے ہماری بلوچ قوم آج بھی پسماندگی کا شکار ہے۔ انکی سب سے بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی، لاشعوری، فرسودہ نظام کے اثرات اور اسکے برعکس ارتقائی سوچ کی کمی ہے۔

اگر ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ اس فرسودہ رسم و راج پر خاموش رہے تو ان کے اثرات بھیانک ہو سکتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے ہر ایک انسان کا حق ہے۔

میں اپنے بلوچ قوم اور خاصکر اپنے قبیلے کے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ ان فرسودہ رسومات اور روایات کے خلاف آج کے دن جاگ جاؤ ورنہ کل تم سُلا دیئے جاؤ گے۔ اٹھو کہ کل تم اٹھا لیے جاؤ گے۔

میں نے اپنے بلوچ قوم اور اپنے مری قبیلے میں کچھ ایسے درآمد شدہ رسومات پائے ہیں جو مذہبی حوالے سے اور انسانی خاص کر عورت کے حقوق کے برخلاف ہیں۔ اس طرح کے فرسودہ روایات کا خاتمہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جس پر بلوچ عورتوں کی فردی آزادی اور انہیں تعلیم سے دور رکھنے کے فرسودہ رسومات اور روایات مغلوب ہیں۔ اور اس دقیانوسی سوچ نے ہماری پوری قوم کو پسماندگی کا شکار بنایا ہے۔ کیونکہ فرسودہ نظام کا خاتمہ اور تعلیم اور شعور ہی ارتقائی سوچ پیدا کرتی ہے۔ جس سے پوری قوم ترقی کرتی ہے۔

تعلیم حاصل کرنا ہر ایک مرد اور عورت پر فرض ہے۔ مگر آج ہمارا پورا قوم تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہے۔ پھر بلوچ قوم کے اندر اگر دیکھا جائے تو خاصکر مری قبیلہ اور چند دوسرے قبائل میں بچیوں کو پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں، آخر کار کیوں؟ یہ کیسا رواج ہے اور کیسی پابندی؟ حالانکہ کہ گھر میں ایک عورت کی تعلیم سے پورا گھر تعلیم یافتہ بن جاتا ہے۔ اور ایک گھر سے پورا خاندان اور خاندان سے پورا قوم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ اور تعلیم ہی سے قومیں ترقی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔

میں خود اس بات پر حیران ہوں کہ جو لوگ عورتوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں وہ پہلے اپنے گھر کے عورتوں کے حقوق کے بارے کیوں نہیں بولتے؟ جو خود کو نہیں بدل سکتا وہ دوسروں کو کیسے بدلے گا؟ یہ بات واضح ہے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق بھی نہیں دیا جاتا۔ اور والدین کی ملکیت سے بیٹی کو جائیداد کا حق بھی نہیں دیا جاتا ہے۔

چائلڈ میریج ایک رواج بن چکا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچیوں کی کم عمری میں اُنکی بچپن کی خوشیوں کو چھین کر انکی مرضی و منشاء کے برخلاف زبردستی شادی کروانا کونسا رسم و رواج ہے؟ یہ کہاں کی جہالت ہے ؟ سجدے کرنے سے کوئی انسان جنت کا حقدار نہیں ہوتا جب تک اُس انسان میں انسانیت نہیں ہوتی۔ انسانوں کو انسانیت کی ضرورت ہے اور نوجوانوں میں سیاسی، علمی، ادبی اور اسلامی شعور کے ساتھ ساتھ عمل کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عمل کے بغیر علم بے کار ہے۔ اس فرسودہ رسومات کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت ہے۔ کہتے ہیں کہ ظالم وہ نہیں جو ظُلم کرتا ہے بلکہ ظالم وہ ہے جو ظُلم کے خلاف خاموش رہتا ہے۔

عورت پر سیاہ کاری بلوچ قوم میں ایک کوڈ ہے جو پوری قوم میں رواج بن چکا ہے۔ حالانکہ سیاہ کاری کے الزام میں شواہد اور ثبوت کے بغیر معمولی شکوک وشبہات پر عورت کا قتل کرنا ایک غیر انسانی عمل ہے۔ مگر مری قبیلے میں زیادہ تر لوگ اپنے بیوی سے بیزار ہوکر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور کسی بے گناہ پر الزام لگا کر اُسے بدنام کردیا جاتا ہے اور جرمانہ کے طور پر لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں چاہے وہ باہر ملک میں کیوں نہ ہو۔ یہ کونسا رواج ہے؟ بغیر شواہد اور ثبوت کے اس طرح کے واقعات کا غلط فائدا اُٹھایا جارہا ہے اور ہمارے بزرگ بھی ایسے عمل کی روک تھام میں سُستی کامظاہرہ کر رہے ہیں آخر اتنا جہالت کیوں؟ کیا سیاہ کاری اسی رواج کو کہتے ہیں ؟ اور اس سیاہ کاری میں ہمیشہ مرد فرشتہ بن کر اُڑ کیوں جاتا ہے؟ وہ بھی تو مرنے کا حقدار ہے۔ صرف معصوم بیٹیاں، بیویاں اور مائیں کیوں مارے جاتے ہیں؟

ہاں البتہ اگر ایسے واقعات رونما ہوئے تو شواہد اور ثبوت اکھٹا کرنے کے بعد مرد اور عورت دونوں کو سزا دینی چاہیئے کیونکہ مرد بھی اس جرم میں برابر شریک ہے۔

خون کا بدلہ خون ہوتا ہے۔ کسی انسان کے قتل کرنے کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور اگر معاف کرنا ہو تو وہ اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ مگر مری قبیلے میں خون کے بدلے میں بچیوں کو قربان کر دیتے ہیں یہ کونسی رواج ہے؟ خون بہا کے آڑ میں بچیوں کا کیا قصور ؟ کیا یہ ظُلم نہیں ہے ؟

اور آجکل قتل کرنے کیلئے پیسے کا رواج بنایا گیا ہے قتل کا منصوبہ بناکر پیسے جمع کرکے قتل کرنے کے بعد پیسے بطور خون بہا دے کر فیصلے کر لیا جاتاہے۔ اس فرسودہ اور غلط رواج کے سائے میں کمزور اور غریبوں کا خون بہانا ایک معمول بن چکا ہے۔ اگر ایسے رواج قائم رہے تو بچیاں قربان ہوتے رہیں گے اور غریبوں کا خون بہاتا رہے گا۔

ان فرسودہ رسم و رواج میں ایک “لب” ہے جن کا بنیادی طور پر مطلب یہ ہے کہ کسی بچی کو بیاہنے کے لئے سسرال والوں سے ایک بھاری رقم وصول کرنا ہے۔

یہ بلوچی زبان کا لفظ ہے اور شاید اسے مری بگٹی، کھیتران،بزدار، قیصرانی اور حد یانی قبائل میں لب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لب کا رواج بلوچ قوم کے بیشتر قبائل میں قائم ہے۔ لب ادا کرنے کیلئے بہت سے غریب لوگ شادی نہیں کر سکتے۔ یہ لفظ “لب” افغانستان کی پیداوار جسے پشتون زبان بھی “ولور” کہتے ہیں۔

جس طرح ایک مرد کو پسند کی شادی پر کوئی روک نہیں اور عورت کو بھی پسند کی شادی کیلئے برابر حق حاصل ہونی چاہیئے۔ ہمارے بلوچ سماج میں بیٹا پسند کی شادی کیلئے بات کرتا ہے تو والدین اس بات پر فخر کرتے ہیں اگر لڑکی نے پسند کی شادی کرنے کی بات کی تو ان کو بدکردار، گناہ گار کہا جاتا ہے۔

کیا عورت کو مرد کے برابر حق حاصل نہیں ہے؟ مگر یہاں تو پیسے لے کر بچیوں کو بیچ کر انکی پسند کے برخلاف دور دراز علاقوں میں شادی کروانا کونسا رسم و رواج ہے چاہے لڑکی اٹھارہ سال کی ہو اور مرد کے عمر کی حدود متعین نہیں۔ کیا یہی ہے ہماری روایت ؟ یہ مری قبیلے کے روایات نہیں بلکہ یہ درآمد شدہ روایات ہیں جسکے اثرات ہمسایہ ممالک کے اقوام سے مرتب ہو گئے ہیں۔ ان فرسودہ روایات کے آڑ میں پیسوں کے عوض اپنے بچیوں کی مرضی اور منشاء کے برعکس انکی شادیاں کروانا کونسا انسانیت اور بلوچیت ہے۔ جو آجکل ہمارے قبیلے میں رواج بن چکی ہے۔ کیا مذہب اور انسانیت ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ پیسے کے عوض دوسروں کی خوشیاں چھین لینا ایک انسانیت ہے؟

پیسوں پر اپنی بچیوں کی شادیاں کروانا اس حد تک رواج قائم کر چکا ہے کہ اگر داماد کے پاس موجودہ وقت میں پیسے نہ ہوں تو وہ اپنی بچی کی شادی اس شرط پر کرواتا ہے کہ اس کے گھر میں پیدا ہونے والی بچی کو دادا کی ملکیت قرار دیا جائے۔ جسے کوہ سلیمانی ڈائلیکٹ میں (کٹکی یا لافی ) کہتے ہیں۔ دنیا بدلتا رہا مگر اسطرح کے فرسودہ روایات آج بھی ہم پر قائم ہیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہم لاشعوریت کے مرض میں مبتلا ہوکر پسماندگی کے شکار ہیں۔ کیا اسلام اور بلوچیت ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ یہ کیسا رواج ہے؟ کیا یہ ایک ظلم نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر یہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں خاموشی کیوں ؟

ظلمت کے خلاف خاموش لوگوں کے بارے میں ڈاکٹر چے گویرا کی کہاوت ہے کہ”قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو صرف اس لئے خاموش تھے کہ کہیں وہ مارے نہ جائیں”۔

1979میں روس کی افغانستان پر یلغار کے بعد افغانستان دو دہائیوں تک ایک عالمی میدانِ جنگ بنا رہا اسی اثنا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کرکے بلوچستان کے شمال سرحدی علاقوں (پشتون بیلٹ) اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں سکونت اختیار کر گئے۔

ان افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ان کے رسم رواج بھی ان کے ساتھ نقل مکانی کر کے بلوچستان آئے ان کے اثرات آہستہ آہستہ یہاں کے مستقل باشندوں پر مرتب ہونے لگے۔

اگر علاقائی حدود سے دیکھا جائے تو بلوچ اکثریت علاقوں میں مری، بگٹی، کھیتران اور بزدار و قیصرانی(جو کہ کوہ سلیمان سے تعلق رکھتے ہیں) کے علاقے شمالی بلوچستان پشتون اکثریت علاقوں سے باقاعدہ ملتے ہیں۔

پیشے سے بلوچ قوم کہ یہ قبائل زیادہ تر گلہ بانی کرتے ہیں اور خانہ بدوش ہیں اس لئے شمالی علاقہ جات جس میں لورالائی، ژوب ،دُکی اور موسیٰ خیل کے علاقے کے لوگوں سے انکا آپس میں ایک مخصوص حد تک میل جول کاروباری مراسم اور رشتہ داریاں ہیں۔ معاشرتی میل جول سے انسانوں میں ایک دوسرے کے عادات و رسومات منتقل ہونے لگتے ہیں اس طرح یہ فرسودہ رسم بھی افغانستان کی سر زمین سے ہوتا ہوا بلوچوں میں منتقل ہوگیا جو کہ آج بلوچ قوم میں انکے چند رسومات نے جگہ کر رکھی ہے۔

بہت سے تاریخ دان اور غیر محقق دانشوروں کا کہنا ہے کہ مری قبیلہ میں باقاعدہ طور پر اس رسم کے اثرات ستر کی دہائی میں کابل جلاوطنی کے بعد آئے لیکن دیگر بلوچ بزرگوں سے معلومات لینے اور تاریخ کے اوراق پلٹنے سے یہ واضح ہے کہ یہ ناسور رسومات بلوچوں میں افغانستان نقل مکانی سے پہلے بھی موجود تھے جو کہ افغان مہاجرین کی پیداوار ہیں۔

ایسے رسومات کو اخلاقی اور شرعی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں لہٰذا یہ سراسر غلط ہے اور ان فرسودہ رسومات کے اثرات سے کم عمر کی شادیاں کم سن بچیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے بیاہ دور دراز علاقوں میں بچیوں کو بیاہنے اور بچیوں پر گھریلو تشدد جیسے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اور کہیں پھول جیسی بچیاں خودکشی کے شکار بن چکی ہیں۔

احادیث کی روشنی میں اسطرح کے رسم و رواج ناجائز ہیں یہ روایات اسلامی نظام میں بالکل نہیں پائے جاتے اور اس طرح کے فرسودہ روایات اسلامی شریعت کے برخلاف ہیں۔ مری قبیلہ وہ قبیلہ تھا جس نے اللّٰہ و اکبر کے نعرے بُلند کرکے تلواریں لہراتے ہوئے اسلام کا جھنڈا بُلند کرکے سلطنتِ عُثمانیہ کا ساتھ دے کر کافروں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ اب ایک پلاٹ زمین کے تنازعے میں اپنے بھائی کا خون بہایا جاتا ہے یہ ہے تُمھاری مردانگی۔ لڑنا ہے تو اپنے سرزمین کے لئے لڑیں۔ غُلامی سے آزادی کےلئے لڑیں۔ حضرت علی کا قول ہے دنیا میں سب سے بڑا غدار وہ ہے جو اپنے سرزمین سے غداری کرتا ہے۔

اسطرح کے فرسودہ رسم و رواج اور یہ عجیب و غریب نظام کے خلاف آواز نا اُٹھانا سب سے بڑی ظُلم ہے۔ اسطرح کے فرسودہ روایت کے خلاف ہمارے وڈیرے، بزرگ اور حکمران تو خاموش ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے باشعور نوجوان کیوں خاموش ہیں؟

نوجوانو! یاد رکھنا اگر اسطرح خاموش رہے تو کل کو آپ لوگوں کو بھی پیسے لیکر اپنی بچّیاں بیچنے پڑیں گے۔ کیونکہ خربوزہ خربوے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لیتا ہے۔ اس طرح کے کئی فرسودہ رسم و رواج ہیں جو ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں مقیم بلوچ قبائل میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اسطرح کے مختلف رسم ورواج منصور بخاری کی کتاب (بلوچستان کے قبائل) میں تفصيلات کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں۔

ہر پڑھے لکھے نوجوان کا یہ حق بنتا ہے کہ اپنے قبیلے میں اس طرح کے فرسودہ نظام کے خلاف آواز اُٹھاکر انکے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ پڑھے لکھے ہونے کا مطلب صرف ڈگریاں لے کر نوکریاں لینا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ہر غلط، ناانصافی اور ظُلم کے خلاف آواز اُٹھانا ہوتا ہے۔ اس طرح کے فرسوہ نظام کے خلاف آواز اُٹھائیں اور اپنا فرض ادا کریں آج ہم اس فرسودہ اور ظُلم کا شکار بن چکے ہیں اس طرح کے ظُلم اور فرسودہ رسومات کے خلاف آواز اُٹھا لیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس ظُلم سے بچ سکیں اور آزاد زندگی گزار سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔