پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے لبرٹی چوک پر بلوچ کونسل کی اپیل پر نوید بلوچ کے جبری گمشدگی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھے مظاہرین نے حکومت سے نوید بلوچ کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں بلوچ ہونا جرم بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجائے دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے مزید نوجوانوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ نوید بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف مہم جاری رہے گی۔
مظاہرے میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
نوید بلوچ یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں مائننگ ڈیپارنمنٹ کے آٹھویں سمسٹر کے طالب علم ہے، جن کا تعلق بلوچستان کے شہر تربت شہرک سے ہے۔
نوید بلوچ آخری سال کے طالب علم ہے، فائنل ایئر پروجیکٹ کے غرض سے پانچ دن پہلے وہ کوئٹہ چلے گئے جہاں انہیں 9 جنوری 2021 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
نوید بلوچ کی طرح کتنے ہی بلوچ سٹوڈنٹس ہیں جن کو لاپتہ کیا گیا جو باعث تشویشناک ہے ۔۔ آخر لاپتہ کرنے والوں کو بلوچ سٹوڈنٹس ہی کیوں نظر آتے ہیں؟ انہیں جلد بازیاب کرایا جاۓ۔۔۔#savenaveedqadeer #SaveBalochStudents pic.twitter.com/gP7ZI92OoM
— Jamil Baloch (@Jamil__Bugti) March 11, 2021
نوید بلوچ کے جبری گمشدگی کیخلاف سماجی رابطوں کی سائٹ پر کمپئین بھی چلایا گیا جو ٹرینڈ پر رہا۔ اس موقع پر عرفان زیب مینگل نے لکھا کہ اس ملک کا مشہور ترین جھوٹ ہے کہ اسٹوڈنٹس اس ملک کے مستقبل کے معمار ہیں کیا مستقبل کے معماروں کو اذیتیں دے کر بعد میں لاپتہ کر دیتے ہیں؟
لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین نے لکھا کہ بلوچستان جہاں بلوچ نوجوانوں کے لیے تعلیمی مواقع اور ماحول نہ ہونے کے برابر ہے محنت کرکے پنجاب کے یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ پرامن ماحول میں تعلیم مکمل کریں لیکن طالبعلم چھٹیوں میں جب گھر واپس آتے ہیں تو گھر پہنچنے سے پہلے لاپتہ کردیے جاتے ہیں۔
جمیل بلوچ نے لکھا کہ نوید بلوچ کی طرح کتنے ہی بلوچ سٹوڈنٹس ہیں جن کو لاپتہ کیا گیا جو باعث تشویشناک ہے۔ آخر لاپتہ کرنے والوں کو بلوچ سٹوڈنٹس ہی کیوں نظر آتے ہیں؟ انہیں جلد بازیاب کرایا جائے۔