عورت اور یوم نسواں – کائنات قادر

612

عورت اور یوم نسواں

تحریر: کائنات قادر

دی بلوچستان پوسٹ

عورت، بذات خود ایک عورت کبھی تصور نہیں کی جاتی یا وہ ایک ماں کے لحاظ سے جانی جاتی ہے یا بیوی، بہن یا بیٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے، لیکن انہی رشتوں کے بدولت عورت کو مقدس شے سمجھا جاتا ہے اور وہ ہے بھی مقدس اور اس مقدس شے کو اس دنیا میں رکھا بھی انہی فرسودہ رسم و رواج اور روایات کو نبھانے کیلئے جس میں آج تک چاہے بلوچ عورتیں ہوں یا یورپین ممالک کی عورتیں سب کے سب انہیں رسموں، رواجوں کی شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں لیکن اپنے آپ کو منوانے کیلئے 15 ہزار محنت کش عورتوں نے اپنی سیاسی ، سماجی اور مساوی حقوق کے لیے نیویارک میں مارچ کیا اور ان کے مطالبات بھی معمولی نوعیت کے تھے، جہاں انہوں نے جنگ و جدل کے برخلاف روٹی کا مطالبہ کیا تھا، جو ان کے بنیادی حقوق میں شمار تھا اور یہ مارچ خواتین کے حقوق اور ان کی تحفظ کیلئے ایک ایسے انقلاب کی شروعات تھی جو آگے جا کر دنیا میں عورتوں کے عالمی دن منانے کا سبب بن گیا۔

8 مارچ (یوم نسواں ) کو بقول ماہ رنگ بلوچ ایک الگ رنگ دیا گیا ہے اس دن کی مناسبت ہی عورتوں کی بنیادی حقوق پر مبنی ہے لیکن اس کو مرد مخالف تحریک بنا دیا گیا ہے، جہاں یہ اجاگر کرنا ہے کہ ” کس طرح نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو روز مرہ کی زندگی سے لیکر سیاسی میدان تک جبر و استحصال کا شکار رکھا ہوا ہے اور بحثیت انسان عورت کے وجود سے انکار کر کے اسے صرف رشتوں تک محدود رکھا گیا ہے”۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران بڑی تعداد میں خواتین کو مختلف صنعتوں میں دھکیلا گیا کیونکہ اس وقت محنت کش مردوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا گیا تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں عورتیں فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کی گئیں تھیں اور بقول ایک لکھاری کہ ” سرمایہ دار کیلئے عورت صرف سستی محنت کرنے والی فوج کے دستے کی مانند ہے، جس کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے اور وہ بہت کم ہی احتجاج کرتی ہے”.

عورت ہر قدم پر اپنی بقا کیلئے یا اپنی قوم کی بقا کیلئے بغیر کسی خوف کے ہمیشہ اٹھ کھڑی رہتی ہے، چاہے وہ ماں ہوجو اپنے بچوں کی مستقبل کیلئے فکر مند ہو یا وہ ماں جو اپنی قوم کے بچوں کی خاطر جلا وطنی تک برداشت کریں ۔ یہاں ہمیں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں جہاں محنت کش خواتین کا کردار نمایاں ہے، اس میں “فرانسیسی انقلاب” “برطانوں مزدور تحریک” اکتوبر انقلاب” ہے، جس میں پرولتاریہ خواتین کی جدو جہد اور ان کی قربانیاں قابل ذکر ہیں۔ جہاں بات قومی استحکام کی ہو تو بلوچ زالبول بھی کسی سے کم نہیں۔ بانڑی بلوچ سے لیکر لمہ وطن کریمہ بلوچ تک سب نے اپنی زندگیاں اپنی قوم کیلئے جدوجہد میں قربان کردیا، جن کی قربانیاں ہمارے لیے باعث فخر ہیں۔

خواتین کا کردار ہر دور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آتا ہے لیکن ان کے ساتھ بہت ہی حقیر قسم کی سلوکیں ہوتی رہیں ہیں، اس وقت عورت کو ایک گھٹیا مخلوق سمجھا جاتا رہا اور ان کو صرف گھرکی چاکری تک محدود رکھا گیا۔

اگر 1917 سے پہلے کی بات کی جائے تو خواتین اپنے خاوند کی غلام سمجھی جاتی تھی اور ان کے حکم کی پابند بھی ۔ لیون ٹراٹسکی ” زندگی کی مشکلات 1924″ میں کہتا ہے کہ حالات زندگی کو بدلنے کیلئے لازم ہے کہ ہم انہیں( چشم زن ) یعنی عورت کی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ عورت درد و تکلیف کی اعلیٰ مثال ہے، جس میں رہ کر بھی ایک آہ تک نہیں بھرتی۔ کبھی وہ گور کی طرح اپنی مال کے تحفظ کیلئے اپنی زمین تک کو چھوڑ دیتی ہے تو کبھی بانڑی بلوچ کی طرح تلوار اٹھاتی ہے تو کبھی کریمہ کی طرح اپنی قوم کیلئے اپنی زندگی تک کو خیرباد کردیتی ہے، تو کبھی مالکناز جیسی بہادری دکھاتی ہے اور کہیں ماہ رنگ کی طرح نڈراور ہزاروں دلوں میں جگہ کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔