ستائیس مارچ ویبنار: تقسیم ہند فارمولہ تسلیم کرنا ہندوستانی قیادت کی سب سے بڑی غلطی تھی جو ہماری غلامی کی سبب بنی۔ دل مراد بلوچ

334

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ستائیس مارچ یوم سیاہ کے حوالے سے ایک ویبنار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت مرکزی سیکریٹری اطلاعات دل مراد بلوچ نے کی اور مہمان خاص ڈاکٹر ناگمان بلوچ تھے۔ پروگرام میں ممتاز دانشور اور بی این ایم کینیڈا کے رہنما ڈاکٹر ظفر بلوچ، بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بطور اسپیکر شرکت کی۔ پروگرام میں موڈیٹرکے فرائض بی این ایم لندن زون کے صدرحکیم بلوچ نے انجام دیے۔

بی این ایم کے انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے بلوچ شہدائے آزادی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا آج ہماری غلامی کو 73 سال پورا ہوگئے ہیں۔ اسی دن بلوچستان پر اس طاقت یا ریاست نے قبضہ کرلیا جسے اس کے اصل مالک کہتے ہیں کہ یہ ریاست اللہ کے نام بناہے اوراللہ کے محبوب دین اسلام کا قلعہ ہے جو ناقابل شکست ہے، ناقابل تسخیرہے، جنگوں میں سبز سرپروں والے فرشتے دشمن پر وارکرتے ہیں جو غزوہ ہند کی تکمیل ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس ریاست کو اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حقیقت میں اس ریاست کے بانیوں کو اسلام سے کوئی خاص لگاؤ تھا یا اسلام کے نام پر کوئی مذہبی فیڈریشن یا خلافت قائم کرنا چاہتے تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھا کہ ریاست کے قیام کے لئے جو عناصر مثلا ہزاروں سالوں کی تاریخ، ثقافت، مشترکہ اقدار، زبان، زمین کی صورت میں ضروری تھے۔ پاکستان کیلئے یہ لوازمات موجود نہ تھے لیکن ہندوستان کا تقسیم ضروری تھا۔ ایک متحدہ ہندوستان مستقبل میں مغربی طاقتوں کے ناقابل قبول تھی،انگریزایک آزاداورمتحدہ ہندوستان سے خائف تھے اور مستقبل میں انہیں ایک تابعدارغلام اورچاکیدارکی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے لیے اسلام کے نام پر برطانیہ نے مسلم اکثریتی علاقوں میں نفرت کا بازار گرم کیااس کانتیجہ قیام پاکستان کی صورت میں نکلا۔

دل مراد بلوچ نے کہا برطانیہ کے اس گیم میں متحدہ ہندوستان کا مسلم اشرافیہ استعمال ہوا، کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ نہرو کی قیادت میں ہندوستان ایک سوشلسٹ ریاست بنے گاتو اس میں زرعی اصلاحات ہوں گے اور جاگیردار مسلم اشرافیہ اپنی جائیداو اور حاکمیت سے محروم ہوں گے۔ اس مقصدکے لیے انگریز نے پہلے ہی مذہبی منافرت کے لیے زمین ہموار کر چکا تھا۔ یہاں انہیں محمدعلی جناح ملا جو بلوچ ریاست کا تنخواہ دار وکیل بھی تھالیکن پاکستان نے قیام کے ساتھ اپنے بانی کے ساتھ دودوہاتھ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ایک تاریخی کمزوری اس وقت کے ہندوستانی قیادت کی تھی جنہوں نے تقسیم ہند کے فارمولے کو تسلیم کیا۔ اگر انہوں نے تقسیم ہند کے فارمولے کو تسلیم نہیں کیا ہوتا تو آج نہ بلوچ قوم اس حال میں ہوتا، نہ یہ خطہ بشمول افغانستان اس نہج پرپہنچ چکے ہوتے۔ لیکن عظیم ہندوستان کے قیادت کی سرنڈر کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوگیا۔حالانکہ تقسیم کا فارمولے میں بلوچستان شامل نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان اور ہندوستان کا معاملہ تھا لیکن اس کا خمیازہ بلوچ قوم کو بھگتنا پڑا۔ اسی تقسیم کے فارمولے نے 73سالوں سے غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ڈال دیا ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا جس ریاست کو اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے، جو ناقابل شکست تھا، جو اسلام کا قلعہ تھا وغیرہ وغیرہ، آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے یہ ریاست دوحصوں بٹ گیا۔ اس کا 54 فیصد والا حصہ بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک بن گیا۔ دو روز قبل بنگلہ دیش نے اپنا گولڈن جوبلی منایا۔ اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ یہ کوئی ناقل تسخیر یا ناقابل شکست ریاست نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس ریاست کے قیام کے لئے سب سے زیادہ کام کیا، اس ریاست کی سالمیت کے لئے پریٹی کا قانون بھی قبول کیا کہ ہمارا 54 فیصد آپ کے 46 فیصد آبادی کے برابر ہے۔ انہوں نے اپنے وسائل اسی کیلئے وقف کر دیئے وغیرہ وغیرہ۔۔ پھر انہوں نے اس ریاست کو توڑ دیا۔ آج یہ انیس سو سینتالیس والا اللہ کے نام پر بنا پاکستان بھی نہیں رہا، بلکہ یہ صرف مغربی پاکستان ہے اور بلوچ، سندھی اور پشتونوں کے زمین پر پنجابی حاکمیت کا دوسرا نام ہے۔

انہوں نے کہا کہ چہتر سالوں سے پاکستان اپنے قومی سوال کا حل بھی نہیں تلاش کرسکا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ پاکستان ایک قوم ہے یا ایک فیڈریشن ہے۔ اس کی اصل پہچان یا قومی شناخت کیا ہے۔ پاکستان اگر ایک ملک ہوتا، اس کا تاریخ کے ساتھ کوئی رشتہ ہوتا تو آج تک پاکستان یہ وضاحت کرنے میں کامیاب ہوتا کہ اس کا قومی پہچان کیا ہے۔ یہ ریاست کبھی اپنے آپ کو عرب لٹیرے محمد بن قاسم سے جوڑتے ہیں،کبھی افغان و مغل فاتحین کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ ملک ایٹمی طاقت تو بن گیا لیکن قومی سوال کا کہیں بھی جواب نظر نہیں آتا ہے۔ حقیقت میں پاکستان تاریخ کے مخصوص دورانئے میں سامراجی طاقتوں کی ضرورت اور ایک کھیل تھا۔ جو چیز ایک مخصوص دورانئے کے لیے بنتا ہے، اس کی مقدرمیں ٹوٹنا ہی لکھا ہے۔ اسے کوئی طاقت ٹوٹنے سے نہیں بچا پائے گا۔ تمام محکوم قومیں ٓآزاد ہوں گے اور بندوبست پاکستان میں سے بلوچستان سب سے پہلے آزاد ہوگا کیونکہ ایک تاریخی حقیقت اورسچائی ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا بلوچستان پر قبضہ کی تاریخ نہایت واضح ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا چکا ہے۔ ریاست قلات کی بنیاد 1666 میں میر احمد قمبراڑی نے رکھا۔ نصیرخان نوری نے اسے جدید شکل دی۔ اگر قبضے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو اس میں بلوچستان کا اہم جغرافیائی پوزیشن کے علاوہ یہ تھا کہ جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایک ہمسائے کی حیثیت سے بلوچ حاکم خان مہراب خان کو یہ گوارا نہ تھا، لہٰذا بلوچ نے مختلف علاقوں میں انگریزی سپاہ پر حملے شروع کردیئے اور یہ قبضے کی فوری وجہ بنا۔ حالانکہ خان انگریز کی قوت سے بخوبی آشنا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے انگریزی سپاہ کا مقابلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 11 اگست کو ریڈیو دہلی سے بلوچستان کی آزادی کا ہوا۔۔ دو ایوانی سیاسی نظام استوارکیا گیا، یہ بلوچ قوم کی جمہوری مزاج کا مظہر تھا۔ الحاق کے مسئلے پر پارلیمان سے نہایت واضح موقف آیا، جسے بائی پاس کرنے کے لیے خان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ نواب خاران، والی مکران، والی لسبیلہ قلات کے حصہ تھے، جن کے گورنر خان قلات تعینات کرتا تھا۔ ان کی چور دروازے سے پاکستان کے ساتھ نام نہاد الحاق کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں تھا لیکن انہیں اپنا نام تاریخ میں بطور غدار لکھانا تھا سو انہوں نے رسوائی اپنے سرلی۔

دل مراد بلوچ نے کہا قبضے کے باوجود انگریز نے بلوچ کی ا قتداراعلیٰ سلب نہیں کی بلکہ بلوچ کے ساتھ 1841،1854،1854،1862 کو مختلف معاہدات کے ذریعے خان قلات کو بلوچستان کا حاکم تسلیم کیاتھا۔

ویبنار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا ہر سال 27 مارچ کو یوم سیاہ منانے کا مقصد انتہائی واضح ہے، کیونکہ سات دہائی قبل بلوچ کے پاس اپنا ریاست تھا جسے بزورشمشیرچھین لیا گیا۔ قومی غلامی کسی بھی قوم کے لیے اس سے قومی زندگی سلب کرنے کے مترادف ہے۔کسی بھی قوم سے اس کا اقتداراعلیٰ، واک و اختیار چھین لیے جاتے ہیں تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے۔ وہ قوم اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی اقدار و روایات پر کاربندنہیں رہ سکتا ہے۔

ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا دشمن کے تمام جبر و تشددکے باوجود بلوچ قوم اپنی روایات و اقدار پر قائم ہے کیونکہ وقت نے ثابت کر دیاہے کہ بلوچ ایک سخت جان قوم ہے۔ بلوچ پاکستان اور اس سے قبل بھی اپنی بقاء اور تشخص کے لیے مختلف دشمنوں کے ساتھ جنگیں لڑ چکا ہے۔ بلوچ اپنی مضبوط اعصاب کی وجہ اپنے بیشتر اقدار زندہ رکھنے میں آج بھی کامیاب ہے۔ اس لیے پاکستانی بربریت اسے ختم کرنے یا کچلنے میں کامیاب نہی ہوسکا ہے۔ تمام اقدار و روایات کی نشوونمایا اور فروغ یا ترقی قومی اقتداراعلیٰ سے وابستہ ہے۔ ایک آزاد قوم ہی بہتر طریقے سے اپنی تہذیب و ثقافت کوفروغ دے سکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح بلوچ قومی غلامی طویل ہے اسی طرح ہماری آزادی کی جدوجہد بھی غلامی کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔ آج بلوچ قتل ہو رہاہے۔ بلوچ کے گھر بار جلائے جارہے ہیں۔ بلوچ نے جلاوطنی کی راہ اختیارکی ہے۔ یہ سب جدوجہدکے حصے ہیں۔ یہ سب اپنی قومی شناخت، قومی بقا، قومی زبان کے لیے ہے۔ یہ جدوجہد اس سیاہ دن کے خاتمے کے لیے ہے۔ بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کو اس امر پر سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح اس غلامی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

بی این ایم کینیڈازون کے رہنما اور بلوچ دانشور ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ ہم سیاسی، تاریخی اور قومی فکر کے حوالے سے سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان کی تاریخ میں 27 مارچ 1948 ایک سیاہ دن ہے۔ اسی دن ہم سے ہماری آزادی، قومی شناخت اور ثقافت چھین لیے گئے اورپاکستان کی ریاست ہم پر جبرا قابض ہوا۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ اس دن کی حیثیت کوسمجھنے کے لیے ہمیں اس وقت کے خطے اور عالمی حالات و محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ وہ بنیادی وجوہات کیا تھیں کہ پاکستان کیونکر ہم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے لئے ہمیں دیکھنا ہے کہ ریاست قلات کے اپنے اندرونی سیاسی پوزیشن کیا تھی اور کون کون سی کمزوریاں تھیں جو ہماری غلامی کی سبب بنیں۔ جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے حالات و واقعات ہم پر دوسری قبضہ کے سبب بن گئے، پہلا قبضہ 1839 کو ہوا تھا۔

انہوں نے کہا پہلی قبضہ کے بعد انگریز کی سوسالہ قبضہ گیریت، تقسیم درتقسیم نے بلوچستان پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ انہی کی بنیاد پر سو سالہ غلامی کے بعد پاکستان انہی تجربات سے کام لیتا ہے۔ 1839 سے لے کر 1948 تک اور اس کے بعد بھی برطانیہ کی سازشیں جاری رہیں۔ برطانیہ کی مدد کے بغیر 1948 کو بلوچستان پر قبضہ ممکن نہ تھا۔ بلوچستان پر انگریز کے قبضہ کی اہم وجوہات میں سے ایک افغان اینگلو جنگیں تھی۔ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنا برطانیہ کی نوآبادیاتی مفادات کی تحفظ کے لیے تھا۔ اس وقت خطے اور عالمی سطح پر بڑے تضاد دو برطانوی نوآبادیاتی طاقت اور زار روس کے درمیان تھا۔ ایشیا اور مغربی ایشیا میں ان کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ اسے روکنے کے لیے ایک بفر زون ضروری تھا۔ افغان اینگلو جنگوں میں بلوچستان ایک اسپرنگ بورڈ اور ملٹری کنٹونمنٹ کے طورپر استعمال ہوا۔ افغانستان پر تمام حملے یہاں سے روبہ عمل لائے گئے۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ افغانستان پر کنٹرول کے لیے ضروری تھا کہ بلوچستان کو بھی اپنے تصرف میں لایا جائے، کیونکہ اگلے مرحلے میں اگر افغانستان ہاتھ سے چلا گیا تو بلوچستان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ان کے تجزیے کے مطابق بلوچستان ریڈزون میں شامل تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ افغانستان اور بلوچستان کو کس طرح ایک بفر زون میں تبدیل کیا جائے۔ اسی منصوبے کے تحت انگریز نے قلات پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعد فارورڈ پالیسی سامنے لایا گیا۔ اس پالیسی کے تحت بلوچستان میں سیاسی اورسماجی ساخت میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ اسی کے تحت سنڈیمن سرداری سسٹم برٹش بلوچستان میں تخلیق کیا گیا۔ اس میں افغان کے کچھ علاقوں کو ملاکر برٹش بلوچستان تشکیل دیا گیا۔ برٹش بلوچستان ہی 1948 کو پاکستان کی بلوچستان پر قبضہ کرنے کی بڑی وجہ بنی کہ کوئٹہ میں میونسپل کمیٹی کے ذریعے ریفرنڈیم کیا جاتا ہے جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اس میں قلات کو نظر انداز کیا تھا اور سو سالہ غلامی سے قلات کی اندرونی سیاسی قیادت انتہائی کمزور ہو چکی تھی کیونکہ سنڈیمن سسٹم کی وجہ سے تمام سرداروں کی مفادات قلات کے بجائے براہ راست برطانیہ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ اجارہ (لیز) پر لیے گئے علاقے اور پشتون علاقوں کو ایک اسسٹنٹ گورنر جنرل (اے جی جی) کنٹرول کرتا ہے۔ اسی کے ذریعے ان علاقوں پر انگریز حاکمیت کرتا ہے۔ بلوچستان میں رابرٹ سنڈیمن کے ذریعے انگریز مزید تبدیلیاں لاتاہے۔ اس میں شاہی ریاست جیسے خارا ن، مکران اور لسبیلہ کو آٹونومس پاور دیا جاتا ہے۔ قانونی اور آئینی حوالے سے یہ قلات کے ماتحت تھے لیکن انہیں کافی خودمختیاری دی گئی تاکہ قلات کو مزید کمزور کیا جائے۔

ڈاکٹر ظفربلوچ نے کہا قبضے کی اہم وجوہات میں فاروڈ پالیسی نے گہرے اثرات مرتب کئے۔قلات کی فوج قبائلی دستوں پر مشتمل تھا۔ فارورڈپالیسی کی وجہ اس پر ان کا کنٹرول ختم یا کمزور ہوتا تھا۔ جب 27 مارچ کو پاکستان قلات میں داخل ہوتاہے، اس وقت وہ پسنی اور جنونی پر پہلے ہی کنٹرول حاصل کرچکاہوتا ہے۔ قلات ریاست کے پاس ایسی کوئی ملٹری فورس نہیں تھا کہ مزاحمت کر سکے کیونکہ اس کی ملٹری طاقت سو سالہ نوآبادیاتی دور میں ختم کیا جا چکا تھا۔ اس کی سیاسی قوت ختم اور سیاسی لیڈرشپ کو کمزور کیا گیا تھا۔ ان حالات نے بلوچستان پر قبضے کیلئے پاکستان کے لیے حالات سازگار بنا لیے تھے۔ جب پاکستانی فوج بلوچستان پر حملہ کرتاہے، اس وقت یعنی 1947سے لے کرفروری 1948 تک پاکستانی فوج کا پہلا چیف آف اسٹاف ایک انگریز فرینک میسروی تھا۔ فروری 1948سے لے کرجنوری 1951 تک دوسری آرمی چیف بھی ڈگلس گریسی ایک انگریز تھا۔ ڈگلس گریسی کا وقت وہ تھا جب بلوچستان اور کشمیر پر حملہ کیا گیا۔ ڈگلس گریسی پاکستانی حکام کو کشمیر پر حملے سے روکتا ہے لیکن بلوچستان پر حملے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر پاکستان پانچ ہزار قبائلی جنہیں پاکستانی فوجی اعلیٰ افسران کی قیادت میں کشمیر پر حملہ کرتاہے اورگریسی کے دور ہی میں یعنی 1948 کو آئی ایس آئی یا انٹر سروسز انٹیلی جینس تشکیل پاتا ہے۔ اس کا بانی برطانوی ایم آئی فائیو کا ایک جنرل تھا اور 59 تک وہی سربراہ رہا۔

ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی حیثیت ہمیشہ ایک سیکورٹی اسٹیٹ کا رہا ہے۔ برطانیہ زار روس کی توسیع کو روکنے کے لئے بلوچستان پر قبضہ کرتا ہے۔ آج پاکستان بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔ چالیس سالوں سے افغانستان میں جتنی تبدیلیاں آئی ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے یا پاکستانی مداخلت اورمغربی ممالک کی مداخلت کے لیے بلوچستان کس طرح استعمال ہوا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی کامیابی کی وجوہات میں بلوچستان کی بیرونی امداد سے محرومی بھی تھی۔ پرنس عبدالکریم کے بغاوت کو کوئی بیرونی مدد حاصل نہ تھی۔ خان قلات نے ہندوستانی قیادت سے رابطہ کیا تو وہاں سے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔،صرف خان قلات اور انگریزوں سے معاہدے تھے جن کی روسے 11اگست کو قلات کی آزادی کا اعلان ہوالیکن یہ آزادی دیرپاء ثابت نہ ہوا۔

ڈاکٹرظفربلوچ نے کہا کہ آج بھی پاکستان بلوچستان پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لیے برطانوی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ فوجی آپریشن، فوجی گیریزن، کنٹونمنٹ وغیرہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں آج بھی جو سیاسی سوال ہے، پاکستان اسے برطانیہ کے طرز پر ملٹری طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس میں ایک تبدیلی یہ آیا ہے کہ ایک نئی گریٹ گیم شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت برطانیہ اور روسی نوآبادیاتی سلطنتوں کے درمیا ن ایک تنازعہ تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دو قطبی دنیا ختم ہو چکی تھی لیکن چین ایک نئی عالمی طاقت کے طورپر بلوچستان میں آچکاہے اوراپنی طاقت کا مظاہرہ کررہاہے۔پاکستانی قبضے کے وقت بلوچ سیاسی قیادت کمزورتھااسی آج بھی سیاسی اتحادکا فقدان ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں بلوچ قومی تحریک عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوچکاہے یہ ہماری سیاسی بصیرت پر منحصرہے کہ ہم طویل المدتی اورقلیل المدتی منصوبے بناکر آگے بڑھتے ہیں۔

بلوچ ماہرلسانیات اور دانشور ڈاکٹر ناگمان بلوچ نے آن لائن سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم میں کچلا گیا۔ جب 5 اگست کو انگریز، پاکستان اور بلوچستان کے نمائندوں کے درمیان ایک معاہدہ جاریہ کیا گیا کہ جب برطانیہ ہندوستان سے انخلا کرے تو یہاں تین ریاستیں بنیں گی، ہندوستان، پاکستان اور بلوچستان۔ اس معاہدہ پر برطانیہ کی طرف سے لارڈماؤنٹ بیٹن، پاکستان کی طرف سے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان اور بلوچستان کی جانب سے خان قلات اور اس کے وزیراعظم نے دستخط کیے۔ اسی معاہدے کی رو سے ایک ہفتے بعد ہندوستان اور پاکستان کی آزادی سے تین دن قبل بلوچستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی ایک سال بھی مکمل نہ کرسکا اور پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔

انہوں نے کہا انگریزوں نے بلوچستان کے ساتھ مختلف معاہدے اور عہدنامے کیے تھے۔ ان میں ایک 1876 کو ہوا تھا خان خدائیداد کے زمانے میں۔۔ اس میں یہ طے پایا تھا کہ بلوچ انگریزوں کے قافلوں کو بحفاظت اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت دے تو انگریز بلوچوں کی مدد کرے گا۔ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ کوئی بیرونی ملک بلوچستان پر حملہ کرے تو انگریز بلوچوں کا ساتھ دے گا۔ جب پاکستان کی جانب سے الحاق کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا تو خان قلات نے اپنا ایک نمائندہ لندن بھیجاتھا کہ برطانیہ معاہدہ کی رو سے ہماری مدد کرے لیکن برطانیہ نے کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی بنیادی وجہ برطانیہ کی سہولت کاری ہے۔ اس کی وجہ اس وقت کا برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم تھی۔ دونوں کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ ممالک ان کے حلقہ اثر میں آجائیں۔ انگریز جانتا تھا کہ آزاد ہندوستان کی قربت روس کے ساتھ ہوگا اور ہندوستانی قیادت کا بیانیہ تھا کہ جاگیرداروں کی زمینیں چھین کر تقسیم کیے جائیں گے۔ ہندوستان اور روسی اثر و نفوظ روکنے کے لیے انہوں نے اسلام کے نام پرلوگوں کو جنونیت کا شکار بناکر پاکستان تشکیل دیا۔

ڈاکٹر ناگمان بلوچ نے کہا کہ جب بلوچستان آزاد ہوا تو یہاں انتخابات منعقد ہوئے، جس میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے 52 سیٹوں میں سے 39 لے کر اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی۔ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ایک ایسی پارٹی تھی جو روسی انقلاب سے متاثر تھا اور اس بات کا قائل تھا کہ سوشلزم سامراجی و دیگر نظاموں سے بہتر سیاسی نظام ہے۔ جب برطانیہ نے دیکھا کہ بلوچستان میں روس نواز لوگ برسر اقتدار آگئے تو اس نے پاکستان کو اکسایا کہ وقت یہی ہے بلوچستان پرقبضہ کرلے۔ یہ تمام تاریخ کے حصے ہیں جن کے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ آج بھی پاکستان کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ جس طرح برطانیہ نے مشرقی بلوچستان پر پاکستانی قبضہ ممکن بنایا، اسی طرح امریکہ نے مغربی بلوچستان پر قبضے کے لیے ایران کو اکسایا تھا۔ 1921 کو سردار دوست محمد بارکزئی ایرانی بلوچستان کے حاکم (آزادی کا اعلان کیا) تھے اور ایران نے حملہ کر دیا تھا۔ امریکہ نے ایران کی مدد کی۔ آج بھی بلوچستان کی غلامی اور پاکستان کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار برطانیہ اور امریکہ کا ہے۔

انہوں نے زبان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غلامی نے ہمیں بے پناہ نقصان دی ہے۔ زبان اور اقدار و روایات بڑے نقصان ہیں۔ لیکن اس سے بڑی نقصان ہماری آزادی کا سلب ہونا ہے کیونکہ آج کے دور میں کوئی قوم آزادی سے محروم ہو تو اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ وہ سو، دو سو یا تین سو سال زندہ رہ سکتا ہے، بلآخر وہ قومی موت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ آج کے دورمیں قومی غلامی، قومی موت کے مترادف ہے۔ آزادی ایک ایسی شئے ہے جسے حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے لوگ سروں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ دوسری نقصان جانی تاوان ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک ہزاروں کی تعداد بلوچ قوم کے لائق و فائق، وطن کے لیے درد مند اور قوم دوست لوگ مارے جاچکے ہیں۔ یہ تمام عام لوگ نہیں جو پاکستان یا اس سے قبل انگریز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، بلکہ یہ سربرآوردہ لوگ تھے۔ غلامی کی تیسری نقصان قومی وسائل کی ہے۔ بلوچستان ساحل و معدنی وسائل کے اعتبار سے ایک امیر خطہ ہے۔ آج جس طرح بلوچ بحر میں بڑی جہاز ٹرالنگ کے ذریعے مچھلی اور دیگر سمندری حیات کا استحصال کررہے ہیں، جس کا شائد اصل تخمینہ نہ لگاسکیں لیکن زمین اور زیر زمین وسائل کی جس طرح لوٹ مار کی جارہی ہے اس کا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ غلامی کی چوتھی نقصان اقدار و روایات، ثقافت اور زبان کا ہے لیکن یہ دیگر نقصانات سے کم تر نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قومی زندگی کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ ہماری ثقافت، زبان، اقدار و روایات پر قدغن لگایا گیا ہے۔ اس کا آغاز پاکستان نے غلامی کے ساتھ کیا تھا کہ بلوچ کو برین واش کرے کہ آپ میں بلوچیت اور بلوچیت کے احساس کا خاتمہ کرے اور بلوچ کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ خود کو پاکستانی تصورکرے۔ جس طرح اسکولوں کی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ ہم بلوچ، سندھی اور پشتون نہیں بلکہ پاکستانی ہیں، بلوچی و دیگر زبانیں علاقائی زبانیں ہیں اور قومی زبان اردو ہے۔ اس کا مقصد بلوچ کو ڈی کلچر deculture کرنا ہے اور آپ کو اپنی زبان و ثقافت سے دور کرنے اور ”ثقافتی گمنامی“کی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔

ڈاکٹر ناگمان بلوچ نے کہا کہ جب کوئی قبضہ گیر کسی قوم کوغلام بناتا ہے تو اپنی غلامی قائم رکھنے کے لیے ایک کام یہی کرتا ہے کہ مقبوضہ قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت، روایات و اقدار، زبان اور تاریخ سے بیگانہ کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچتاہے۔ اس کا فائدہ پاکستان کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ جب آپ اپنی شناخت و ثقافت سے محروم ہوتے ہیں، اردو میں بات کرتے ہیں یا پاکستانی بن جاتے ہیں تو آپ ایک بلوچ نہیں رہتے۔ آپ وہی پڑھتے ہیں جو پاکستان درس دے رہا ہے۔ اس سے آپ کی شناخت مٹ جاتی ہے۔ جب شناخت مٹ جاتی ہے تو آپ بلوچستان کی دعویداری نہیں کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ بلوچیت کے احساس سے محرومی کا مطلب اپنی وفاداری تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ جب آپ پاکستانی بن جاتے ہیں، اس کے ترانے گاتے ہیں تو آپ پاکستان کی حفاظت کا عہد کرتے ہیں۔ تو اس صورت میں آپ بلوچستان کے احساس سے دور ہوچکے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹرناگمان بلوچ نے زبان کے حوالے سے بات کرتے بلوچ سیاسی پارٹیوں کو تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہا پاکستان کی سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ زبان سے محروم کرکے آپ کو ”ڈی کلچر“کرے۔ میڈیا، سکولوں، سرکاری دفاتر میں زبان پر پابندی عائد کرے تاکہ مجبور ہوکر اردو استعمال کریں۔ پھر یہ ایک عادت بن جاتی ہے۔ جس طرح ہمارے سیاستدان یا سیاسی پارٹی آج کل کررہے ہیں۔ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں اردو اور ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں فارسی سیاسی اظہار کا زبان بن گیا ہے۔ قومی اظہار کا زبان بلوچی و براہوئی نہیں بلکہ اردو اور فارسی ہیں۔