ہیومن را یٹس کمیشن آف بلوچستان (حَقپان) کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی گئی۔ حقپان کے رہنماوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں اور حالات کے متعلق تفصیلات فراہم کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال دو ہزار بیس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 771 افراد قتل جبکہ 480 افراد کو ماوراٸے عدالت گرفتار کیا گیا۔ یہ اعداد وشمار ان چند اضلاع کی ہے جہاں ہماری رساٸی رہی ہے۔ بیشتر علاقے نو گو ایریا میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے ہم رپورٹ کنفرم نہیں کرسکے۔
سال دو ہزار بیس سیاسی، معاشی، سماجی غرض ہر حوالے سےصدی کا بدترین سال کی طرح گزرا، کورونا وباء نے دنیا کی معیشت اور سماجی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا لیکن اس وباء کے دور میں نسل انسانی کو تحفظ دینے کے لٸے کٸی ممالک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے لیکن بلوچستان اس وباء کے دنوں میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا کے وباء کی وجہ سے شہروں میں تعلیمی ادارے بند ہوئے تو بلوچستان کے وہ طلباء چٹھیوں میں اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جو دیگر شہروں میں یونیورسٹی اور کالجز میں پڑھتے تھے اور وہ لوگ بھی اپنے دیہاتوں کی طرف مڑے جو مسلسل ملٹری آپریشنز کی وجہ سے اپنے گاوں چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو چکے تھے۔ ان میں سے بہت سے طلباء اور شہریوں کو ریاستی اہلکاروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا اور کئی کو دن دہاڑے، لوگوں کے سامنے بے دردی سے قتل کردیا۔
تعلیمی ادارے بند ہوئے تو پوری دنیا اور پاکستان میں، تعلیم و تدریس آنلائن چلتی رہی۔ مگر جب بلوچستان میں طلباء نے انٹرنیٹ کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں تو ان پر پولیس دوڑائی گئی اور طلباء و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کر لیا گیا۔ جب ڈاکٹرز نے حفاظتی کِٹ مانگے تو ان پر پولیس کی لاٹھی برسائی گئی۔
چٹھیوں پہ آنے والے تربت کے رہائشی، کسان کا بیٹا، کراچی یونیورسٹی کا طالب علم اپنے والدین اور بہن بھائیوں کیساتھ کھیتوں پہ کام کر رہا تھا، جہاں فرنٹیر کور کے اہلکار حیات بلوچ کو گھسیٹ کر سڑک پر لے آئے۔ اسکے والدین فوجیوں سے فریاد کرتے رہے۔ سپاہیوں نے اسکے ماں کا دوپٹّہ چھین کر اس سے حیات بلوچ کے ہاتھ پاوں باندھے اور اسکے سینے پر آٹھ گولیاں داغے، جس سے حیات بلوچ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 اپریل کو مشکے آواران کے رہائشی مراد جان کو ایف سی اہلکاروں نے اپنے کیمپ میں بلایا اور اس سے پوچھ گچھ کی۔ مراد جان کو چونکہ اردو نہیں آتی تھی تو وہ نہ سوال سمجھ سکا اور نہ ہی جواب دے پایا۔ اس پر مراد جان کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر اس بات پر رہا کردیا کہ وہ اگلے دن ایک اردو ترجمان ساتھ لے کر کیمپ آجائے۔ مگر مراد جان ان زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگیا۔
ساتھ مئی کو مند کے رہائشی جاوید گوہرام کو ایف سی اہلکار، مند میں بلوچ آباد گاؤں کے مسجد سے گرفتار کر کے لے گئے۔ خاندان کے لوگوں نے جب مقامی افسران سے رابطہ کیا تو انکو کہا گیا کہ جاوید کے بھائی، زُبیر کو انکے حوالے کیا جائے اور بدلے میں جاوید کو لے جائیں۔ خاندان کے افراد نے ایسا ہی کیا۔ جاوید کو انتہائی تشویشناک حالت میں خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ خاندان کے لوگ جاوید کو پہلے تربت اور پھر کراچی علاج کیلئے لے گئے۔ جاوید 26 مئی کو کراچی کے ہسپتال میں چل بسا۔ اسکے دونوں گُردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ دورانِ حراست شدید تشدد کے علاوہ، ہفتوں تک نہ اسے کھانا دیا گیا اور نہ ہی پانی۔
دو ہزار بیس میں، باقی سالوں کی نسبت، خواتین کے قتل میں کافی اضافہ ہوا۔ مئی کے مہینے میں تربت کے علاقے ڈَنُک میں رات کو دو ڈاکو ایک گھر میں ڈکیتی کی غرض سے داخل ہوئے۔ جب گھر کی عورت، ملکناز نے شدید مزاحمت کی تو ڈاکووں نے فائرنگ کرکے ملکناز کو شہید اور اسکی چار سالہ بیٹی برَمش کو زخمی کردیا۔ گھر والے دو میں سے ایک چور کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس چور کی جیب سے ملٹری کا کارڈ برآمد ہوا اور اس نے اعتراف کیا کہ وہ ایک گینگ ہیں اور ملٹری کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایف سی حکام کے کہنے پر سیاسی کارکنوں کو اغواء یا قتل کرتے ہیں اور بدلے میں وہ ہر قسم کی چوری، ڈکیتی اور جرائم کرنے میں آزاد ہیں۔
چودہ جون کو تربت کے علاقے تمپ میں ایک اور خاتون کلثوم بلوچ کو اسی طرح گھر میں ڈکیتی کی نیت سے آنے والے دو افراد نے اسکے بچوں کے سامنے چھُری سے ذبح کردیا اور قاتل معلوم ہونے کے باوجود آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر کو ایک اور خاتون، آسیہ بی بی کو ایک پولیس اہلکار نے گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا، اور قاتل آج بھی آزاد گھوم رہا ہے۔
ایک اور واقعے میں تربت کی مشہور شاعر، صحافی، آرٹسٹ اور عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی سرگرم کارکن، بی بی شاہینہ شاہین کو مبینہ طور پر اسکے شوہر، محراب گچکی نے قتل کر دیا۔ قاتل آج تک گرفتار نہ ہو سکا۔ حالانکہ بلوچستان میں کوئی ایسا گاوں، کوئی شہر، کوئی دیہات نہیں جہاں ایف سی اور ملٹری کا کنٹرول نہ ہو۔ تمام گائوں میں ہر شخص کو وقتا فوقتا ملٹری کیمپ جا کر حاضری دینی ہوتی ہے۔ ایک ہی گاؤں کے ایک محلے سے دوسرے محلے تک جانے کیلئے ملٹری کئی کئی چیک پوسٹس پر اپنی شناخت ثابت کرکے سفر کی ایک معقول وجہ بتانی پڑھتی ہے۔ مگر قاتل چونکہ بلوچستان کی راٸل فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ وزیر اعلیٰ کے قبیلے سے بھی رشتہ رکھتا ہے، اسی لئے اُسے آج تک ڈھونڈنے اور گرفتار کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گٸی۔
خواتین کے علاوہ بچوں کے قتل میں بھی بہت تیزی آئی۔
تیس اپریل کو تمپ کے علاقے میں ایف سی اہلکاروں نے ایک گاڑی پر فائرنگ کی، جس سے 17 سالہ امام شیر کو دو گولیاں لگیں۔ اہلکاروں نے اسے زخمی حالت میں گھسیٹ کر اپنی چوکی کے قریب دھوپ پر پھینک دیا۔ امام، شام تک اسی طرح سڑک پر تڑپتا رہا اور اسکے بعد زیادہ خون بہنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگیا۔
بیس دسمبر کو پنجگور کے علاقے کیلکور میں فوجی آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹرز نے شیلنگ کی، جس سے ایک ہی گھر کے ساتھ افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں 14 سالہ حمزہ عمر بھی شامل تھا۔
ایک اور واقعے میں، 7 دسمبر کو 13 سالہ حنیف میران اور 16 سالہ امیر بخش اس وقت لاپتہ کردئیے گئے جب وہ تجابان سے تربت جارہے تھے۔ اگلے دن دونوں کی تشدد زدہ لاشیں، ہیرونک پُل کے پاس پڑی ملیں۔
دس ستمبر کو چاغی میں بارشوں کی وجہ سے ایک کھڈے میں دبائے گئے انسانی لاش کی ہڈیاں ظاہر ہوئی۔ جب گاوں میں خبر پھیلی تو لاپتہ افراد کے اہلخانہ اس مقام پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ حفیظ اللہ محمد حسنی کی تین سال پرانی لاش تھی۔ حفیظ کو 30 اگست 2016 کو ایف سی اہلکار اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ تب سے لاپتہ تھا۔ اغواء کے بعد ایک ایف سی میجر نے خاندان سے رابطہ کرکے ساٹھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ خاندان نے اپنا سب کچھ بیچ کر 58 لاکھ روپے اس میجر کو دے دئیے اور حفیظ کی واپسی کے منتظر تھے۔ حفیظ کے بھائی نے لاش کی دانتوں سے شناخت کی۔
ان کا کہا تھا کہ ملک کے علاوہ، بیرون ممالک میں مقیم بلوچستان کے دو اہم شخصیات، ساجد حسین اور بانک کریمہ بلوچ بھی پہلے گمشدہ ہوئے اور پھر ان دونوں کی لاشیں سویڈن اور کینیڈا میں، نہروں سے برآمد ہوئیں۔ گو کہ دونوں واقعات کی بہت سی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں، مگر دونوں واقعات میں اس ملک کی ملٹری اور آئی ایس آئی پر شبہ کا اظہار کیا جا چکا ہے۔
واقعات کی تحقیقات کی ذمہ دار یقینا سویڈن اور کینیڈا ہونگی مگر دونوں کی میتوں کیساتھ ناروا سلوک عوام کے شک و شبہات کو تقویت دیتی ہے۔
بانک کریمہ بلوچ کی جسد کو کراچی ائیرپورٹ سے ملٹری نے اپنے قبضے میں لے لیا اور مکران کے بیشتر علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا۔ حتیٰ کہ گا وں کے لوگوں کو بھی جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی اور قبر پر فاتحہ خوانی کی بھی اجازت نہیں دی گٸی۔ جبکہ ساجد حسین کی لاش کو پاکستان منتقل کرنے والی کمپنی کے مطابق، ساجد حسین کی لاش سویڈن آرلَندآ ائیر پورٹ پر ہفتوں پڑی رہی کیونکہ پاکستان کی جانب سے انہیں این او سی جاری نہیں کی گئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال 480 افراد کو اغواء و گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا جن کا تعلق ضلع آواران، ڈیرہ بگٹی، گوادر،ہرنائی، لسبیلہ، کچھی، کیچ، خاران، خضدار، مستونگ، نوشکی، پنجگور، کوئٹہ،سبی اور واشک سے ہیں۔، اسکے علاوہ کراچی سے 3 اور اندرون سندھ سے 2 لوگوں کو اغوا کیا گیا۔ سال 2020 کے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد میں ایک بہت بڑی تعداد طلبہ کی ہے۔ اسکے علاوہ 17 عورتیں بھی شامل ہیں جن کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر بعد میں رہا کر دیا گیا۔
چودہ فروری کو کوئٹہ سے حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کو ایف سی اہلکار اٹھا کر لے گئے، جنکا آج تک کسی کو علم نہیں کہ وہ کیسے ہیں، کہاں ہیں اور کس الزام میں گرفتار کئیے گئے ہیں۔ خاندان نے پولیس میں ایف آئی درج کرائی تو ایف آئی آر نامعلوم افراد کیخلاف درج کر دی گئی، حالانکہ پولیس کو بتایا گیا تھا کہ آغواکار کون ہیں۔
پولیس ایف آئی آر کے علاوہ، انکی بہن، بی بی حسیبہ نے ملکی عدالت، پارلیمان، عسکری قیادت، میڈیا، سب سے رجوع کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ، یورپی یونین و امریکی اسٹیٹ ڈِپارٹمنٹ کے پاس بھی کیس جمع کرکے ان سے استدعا کی، مگر تاحال انکا کوئی پتہ نہیں۔
انکے گھر والے نہ جی سکتے ہیں اور نہ ہی مرسکتے ہیں۔
رہنماوں کا کہنا تھا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں کچھ لاپتہ افراد بازیاب بھی ہوئے، مگر بازیابی کی شرح اغوا کی شرح سے بہت کم ہے۔
اسکے علاوہ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں گچک کے علاقے سے اللہ داد کے پورے خاندان جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سودا سلف لے کر پنجگور سے واپس آرہے تھے۔ ان تمام افراد کو 6 دن تک عقوبت خانے میں رکھا گیا اور بعد میں رہا کیا گیاْ۔ پچھلے سال ماہ اگست سے گچک کے مختلف گاوں اور اضلاع میں ملٹری آپریشن جاری ہے۔ ملٹری آپریشنز کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو جبراً لاپتہ کیا گیا جن کو شدید غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسکے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں گھروں کو لوٹ کر جلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما منظور پشتین اور اسکے ساتھیوں پہ حملہ ہوا جسکی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ منظور پشتین اور اسکے دوستوں پر حملہ، انسانی حقوق و انسانی عظمت کی بحالی کی پُر امن جدوجہد پر حملہ ہے اور اس پالیسی کے نتائج بہت خطرناک ہونگے۔ اسکے علاوہ سی ٹی ڈی کوئٹہ نے 7 مارچ کو پانچ نوجوانوں کو جعلی مقابلہ میں گولیاں مار کر قتل کیا جسکی جتنی مزمت کی جائے کم ہے۔ ان پانچ نوجوانوں کو سیکورٹی اداروں نے مختلف علاقوں سے ماوراٸے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔ اسکے علاوہ سی ٹی ڈی نے ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے مزید دو نوجوانوں کو دہشت گرد ظاہر کر کے اپنے اخباری بیان میں دعوی کیا ہے کہ دونوں نوجوانوں کو کوئٹہ سے گرفتار کیا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔ دونوں نوجوانوں کو سیکورٹی اداروں نے پنچگور سے چند مہینے پہلے اغوا کیا تھا اور تب سے لاپتہ تھے۔ اسی طرح راشد حسین کی والدہ کو سی ٹی ڈی کراچی نے بلا کر راشد حسین کے کیس کے بابت جھوٹے انفارمیشن پہ دستخط کرنے پہ زور دیا اور انکار کرنے پر انکو ہراساں کیا گیا۔
اسکے علاوہ گذشتہ مہینے گمشدہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دس دن تک دھرنا دیا اور بعد میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری کی اس ضمانت پہ دھرنا ختم کیا کہ 15 مارچ تک تمام لواحقین کو انکے پیاروں کے بابت معلومات فراہم کی جائی گی اور وزیراعظم ملاقات کرینگے۔ لیکن مسنگ پرسنز کے حوالے معلومات فراہم کرنے کے بجائے مسنگ پرسنز پہ جھوٹے کیس فائل کر کے انکو جعلی مقابلے میں قتل کیا جا رہا ہے۔
رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان پچھلے کئی دہائیوں سے ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے لاقانونیت اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا آماجگاہ بن چکا ہے۔ اگر ان پالیسیوں پہ نظر ثانی کر کے انکو تبدیل نہ کیا گیا تو بلوچستان میں بدامنی میں مزید اضافہ ہوگا۔