ساحلِ بلوچستان پر قبضہ – ظفر بلوچ

200

ساحلِ بلوچستان پر قبضہ

تحریر: ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎تاریخ کے کتابوں میں ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ کسی زمانے میں مصر کی فرعون قلوپطرہ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیئے ایک بار بلوچستان کے ساحلوں پر قبضہ کرنے کے لیئے آیا تھا لیکن یہاں انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ یہاں سے بے نیل و مرام نکل کر واپس اپنے سلطنت میں چلا گیا ـ

اس کے بعد یونانی، ترکش مصری اور عرب حکمرانوں نے تاریخ میں کہیں نا کہیں بلوچستان کے ساحلوں پر قبضہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن بلوچستان کے غیور اور بہادر سپوتوں نے ہر حملہ آور کو پیچھے دھکیل کر بلوچستان پر قبضہ کرنے سے روک دیا ہے.

جب پرتگالیوں نے بلوچستان پر اپنی قبضہ جمانا چاہا تو ساحل بلوچستان کے فرزند حمل جیئند اپنی جان کی بازی لگا کر پرتگالیوں کو یہاں ٹکنے نہیں دیتا ہے۔

‏‎اگر حمل جیئند غیر ملکی پرتگالیوں کو شکست نہیں دیتا تو اس وقت کے سپر پاور پرتگالی آگے بڑھ کر دولتِ عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے کیونکہ وہ لٹیرے تھے ان کا کام بس سلطنتوں کو تخت و تاراج کرکے اپنے خزانے بھرنے تھے۔

‏‎بلوچستان ایک ایسا وسیع و عریض خطہ ہے جس کی جغرافیہ، آب ہوا، بے آب و گیاں، کھلی میدانیں اور مضبوط پہاڑی سلسلے دنیا کے تمام غیر ملکی حملہ آوروں کو ایک حد تک روکے رکھا ہے۔ ـ

جب عرب مسلمانوں نے بلوچستان پر حملہ کرنا چاہا تو اس وقت کے مسلمان خلیفہ نے اپنے ایک قاصد کو بلوچستان کے بارے میں معلومات لینے کیلئے بیجھا اور وہ معلومات لے کر خلیفہ وقت کے دربار میں حاضر ہوا کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے اگر بڑی لشکر لے کر جائیں تو بھوک سے مر جائیں گے اگر کم تعداد میں حملہ آور ہوئے تو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اور یہی بلوچستان کی حقیقت ہے کیونکہ جس قدر سکندر اعظم کی فوج کو بلوچستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا شاید سکندر اعظم کی فوج کو کہیں بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ـ

‏‎ستر کی دہائی میں جب سوویت یونین( موجودہ روس) نے اپنے قدم افغانستان کے جنگلوں اور پہاڑوں میں رکھا تو روس کا سب سے بڑا مقصد افغانستان کے راستے سے بلوچستان کے سمندر گرم پانی تک پہنچنا تھا کیونکہ روس برسوں سے بلوچستان کے ساحلوں پر
اپنی نظریں جمائے بیٹھا تھاـ۔

روس کو معلوم تھا کہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور قحط زدہ میدانوں میں اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا ـ لیکن امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو سوویت یونین کی یہ حرکت بالکل پسند نہیں آیا اور سوویت یونین کو افغانستان اور پاکستانی مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعے انہدام کر دیا گیا۔ ـ

‏‎ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد پھر اس نے پچھے مڑ کر نہیں دیکھا لیکن اس کی اب بھی نظریں بلوچستان کی گرم پانیوں تک لگا ہوا ہے ـ
‏‎نائن الیون کے بعد فوراً بعد چین نے جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر گوادر میں سرمایہ کاری کی ابتداء کی اور پاکستانی فوج کے ساتھ چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کی ـ گوادر ڈیپ سی پورٹ بنانے کا ابتدا مشرف کے دور 2002 میں شروع ہوئی چین کی بلوچستان کے ساحلوں پر قدم رکھنے کے بعد امریکی اور دیگر مغربی طاقتوں کو ناگوار گزرا اور انہوں نے چین کے قریب اور ہمسایہ ٹوٹے پھوٹے ملک افغانستان میں داخل ہوکر ایک طرح سے چین کو دھمکی دے دیا ہے کہ میں آپ کے سینے پر بیٹھا ہوا ہوں۔ ـ

‏‎افغانستان میں امریکا نے اربوں ڈالر لگا کر اس جنگ کو کئی برسوں سے جاری رکھا ہے ان کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے وہ کسی بھی طرح چین کو نہ صرف ساحل بلوچستان سے بیدخل کرنا چاہتا ہے بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی عفریت کو انہدام کرنا چاہتا ہے۔ ـ

‏‎اس وقت دنیا میں موجود تمام عالمی طاقتوں کی نظریں نہ صرف گیٹوے آف ایشیا گوادر پر ہیں بلکہ سیاست اور دفاع کے کھلاڑیوں کی نظریں بلوچستان کی جنگ آزادی کی تحریک پر ہے کہ وہ کس طرح بلوچ قوم سے ڈیل کرکے انہیں سپورٹ کرے یا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ تمام عالمی طاقتوں کا خاص کر امریکا برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتیں کسی بھی حال میں چین کو سپرپاور تو نہیں بننے دیں گے لیکن اس چین کا راستہ روکنے کے لیئے خطے میں کس ریاست یا قوم سے اپنا رابطہ برقرار رکھ کر چین کو چین کے اندر سے کمزور کیا جائے اور اس کا بوریا بستر نہ صرف بلوچستان میں گول کر دیا جائے بلکہ آنے والے دنوں میں اسے دوبارہ سر اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ ـ ـ

‏‎ہمارے تمام سیاسی کارکنوں کا سب پہلا اور بڑا ذمہ داری یہ ہونا چاہئیے کہ اپنے ساحلوں کی حفاظت کرنا ہے تو ہمیں اپنی اپنی لیڈرشپ کو قومی اتحاد کے لیئے دباؤ میں لانا ہوگا تاکہ ہم ایک بار پھر منظم بلوچ طاقت سے اپنے ساحل و وسائل کی دفاع میں کامیاب ہوسکیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔