زاہد بلوچ کی گمشدگی سے خاندان سخت اذیت میں ہے – اہلخانہ

488

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کی گمشدگی کو 7 سال مکمل ہونے پر اہلخانہ نے بیان جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی سے پورا خاندان سخت اذیت اور کرب میں مبتلا ہے، زاہد کی غیر موجودگی میں ان کے چھوٹے بچے باپ کے سائے سے محروم رہنے کے ساتھ تعلیم کو جاری رکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زاہد جان کو سات سال پہلے 18 مارچ 2014 کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا جو اب تک لاپتہ ہیں، اس وقت صرف زاہد نہیں بلکہ تمام خاندان قید زندان ہے بس فرق اتنا ہے کہ زاہد جان ٹارچر سیلوں میں جبکہ ہم کھلی فضا میں زندان کی اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ زاہد جان کی گمشدگی کو اب سات سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن ان کی جان سلامتی اور قیدِ زندان میں وہ کن حالات میں ہے اس کا ہمیں بتایا نہیں جارہا ہے جس سے ہماری پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوتا آ رہا ہے، اس درد اور اذیت کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے پیارے اس عذاب میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زاہد جان کی گمشدگی کے خلاف ہم نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس کے بعد ہم ہر وقت کورٹ کے شنوائی میں پیش ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان کے بارے میں کوئی معلومات مہیا نہیں کیا جاتا، زاہد کی باحفاظت بازیابی کیلئے انسانی حقوق کے تمام اداروں کو لیٹر لکھ دیئے ہیں ہم نے بطور ایک خاندان زاہد جان کی بازیابی کیلئے پاکستان سمیت انٹرنیشنل اداروں کے قوانین کے مطابق تمام ضروری کارروائیاں پوری کی ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ہمیں انٹرنیشنل اداروں کی طرف سے بارہا یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ زاہد جان کی بازیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب تک زاہد کی کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوا ہے جو باعث تشویش ہے اور خاندان کیلئے اذیت میں اضافے کا سبب ہے۔ زاہد جان کی باحفاظت بازیابی کیلئے ہم نے اسلام آباد سے کراچی تمام شہروں میں احتجاج کرکے اپنی فریاد حکام بالا تک پہنچائی ہے، اگر زاہد کسی جرم میں ملوث ہے تو اس کا سزا بطور خاندان ہمیں کیوں دیا جارہا ہے، دنیا میں کسی بھی شخص کو لاپتہ کرنے کی کوئی قانون موجود نہیں ہے، زاہد طالب علم رہنماء تھا اگر اس نے کوئی گناہ کیا ہے تو اسے پاکستان کے قانون کے مطابق سزا دی جائے انہیں کیس لڑنے کا موقع دیا جائے اور خاندان کو اس کرب اور اذیت سے نکالیں۔

لواحقین نے کہا کہ جب بھی کسی شخص کی بازیابی کی اطلاع ملتی ہے تو ہمارا دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں وہ زاہد تو نہیں اور ہم جلد ہی بازیاب شخص کے بارے میں معلومات کرتے ہیں لیکن دوسری جانب جب بھی کسی شخص کی مسخ شدہ لاش کی نیوز آتی ہے تو ہم پر جیسے آسمان گر جاتا ہے کہ خدا نہ کریں وہ ہمارا زاہد جان تو نہیں، زاہد کی اس حالت میں گمشدگی سے ہم غیر انسانی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں جو اس ملک میں بطور شہری ہمارے ساتھ ناانصافی ہے، کیا ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ بحیثیت ریاست کے شہری اپنے پیاروں کو دیکھ سکیں اور یہ معلومات کر سکیں کہ وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ضروری کارروائیاں پورا کرنے کے بعد بھی ہمیں زاہد جان کی کیس میں کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملا ہے جس کے بعد ہم مجبور ہیں کہ ایک مرتبہ پھر احتجاجوں کا سلسلہ شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ زاہد جان کی باحفاظت بازیابی کیلئے 18 مارچ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ ریکارڈ کیا جائے گا جبکہ اسی دن سوشل میڈیا میں #SaveZahidBaloch کے نام سے ایک کمپئین بھی چلائی جائے گی جس میں ہم تمام انسان دوست، تعلیم دوست، سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں، طالب علموں اور تمام شعبے زندگی سے تعلق رکھنے والوں لوگوں سے شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔