بُک ریویو : پولیٹیکل مینجمنٹ – ڈاکٹر جلال بلوچ
تحریر: دیدگ نُتکانی
دی بلوچستان پوسٹ
آج یہ خاکسار ڈاکٹر جلال بلوچ کی کتاب “پولیٹیکل مینجمنٹ” پہ ریویو دینے کی کوشش کررہا ہے. ڈاکٹر صاحب جیسے اعلی پائے کے مصنف کی تصنیف پہ قلم آزمائی یقیناً میرے لیئے مشکل تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھ ساتھ اعزاز کی بھی بات ہے.
انکی علمی قابلیت اور اسلوب کے سحر میں کوئی بھی گرفتار ہو سکتا ہے اور انکا اندازِ تحریر کسی شخص کو بھی متاثر کر سکتا ہے. اُنکی چند قابلِ ذکر تحاریر میں ‘شہر سوختہ ”توتک”, ‘خود کو جاننا’ ‘سیاسی لیڈر اور لیڈرشپ’ ‘ریاست کی تشکیل سے عہدِ غلامی تک’ اور ‘ایک عہد ساز کردار, شہید جنرل اسلم بلوچ’ شامل ہیں.
اس کتاب میں وہ سیاسیات, سیاسی تنظیم سازی
قوم و قوم دوستی, سیاسی محرکات, سیاسی پارٹی کی ضرورت, سیاسی رویوں سمیت اسکے مختلف پہلوؤں کے بارے میں روشنی ڈالتے ہیں. وہ ہزار سالہ ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجودہ انسان, اسکی ضروریات اسکی تعمیر و ترقی اور اس پہ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ ان تمام تر مراحل میں بیسویں صدی کی اہمیت پہ زیادہ زور دیتے ہیں.
وہ کہتے ہیں بیسویں صدی انقلاب کی صدی ہے, اس صدی میں انسان نے ترقی کی نئی منزلیں طے کیں, یہی صدی ہے جس میں نئے سیاسی نظام مرتب ہوئے, اسی صدی میں ظلم و جبر کی کئی داستانیں رقم ہوئیں اور کروڑوں انسان لقمہْ اجل بنے.جہاں نوآبادیاتی نظام اپنے عروج پہ تھا, یہی صدی تھی جس میں فرسودہ اور رجعت پسندانہ نظریات اور خیالات دفن ہوئے, لیکن ان تمام تر ظلم و جبر کی داستانوں میں آزادی اور خودمختاری صرف اُن قوموں کے نصیب میں آئی جنہوں نے اپنی راہوں میں جدت اپنائی, جنہوں نے تمام فرسودہ اور پرانے نظاموں سے بغاوت کی اور نظریاتی اور سائنسی خطوط پہ اپنی بنیادیں استوار کیں. ایسی کئی ریاستیں وجود میں آئیں جو کئی دہائیوں سے نوآبادکار کے ظلم و زیادتیوں کا شکار تھیں, لیکن وہی گروہ, وہی قومیں اور ریاستیں جنہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچا, سیاسی تنظیم سازی کی, اداروں کی بہتری پہ توجہ دی اور دشمن کے خلاف ایک جسم ایک جان کی مانند کھڑے ہوگئے آج ترقی ان ریاستوں کے قدم چوم رہی ہے, وہی ریاستیں آج تعلیم,سائنس اور فن میں نئے جوہر دکھا رہی ہیں لیکن وہ بدنصیب قومیں جنہوں نے جدت کو قبول نہیں کیا, اور نہ ہی ادارہ جاتی سیاست پہ توجہ دی آج تک ظلم وبربریت کا شکار ہیں.
وہ لکھتے ہیں اُن چند بدنصیب قوموں میں ایک بلوچ قوم بھی تھی جس نے جدید نظریات اپنانے سے انکار کیا اور وہی فرسودہ نظام قبول کرنے میں بہتری محسوس کی.
بیسیوں صدی کے اوائل تک سیاسی تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر تھا, کہیں پہ اگر تھا بھی تو “انجمن اتحادِ بلوچاں” اور “قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی” کی صورت میں جہاں کسی حد تک جدت دیکھنے کو ملتی ہے لیکن انجمن اتحادِ بلوچاں بھی شخصیت پرستی کی نظر ہوگئی, کیونکہ میر عبدالعزیز کرد کی گرفتاری اور نواب یوسف عزیزمگسی کی کوئٹہ کے زلزلے میں شہادت کی وجہ سے اس کا سیاسی عمل اختتام پذیر ہوچکا تھا. اور جہاں تک بات ہے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی تو جب ہم اس کے منشور کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں ہمیں جدید سوچ اور قوم پرستانہ جذبہ اور حب الوطنی کی مہک دکھائی دیتی ہے. عوامی مقبولیت کی وجہ سے سینتالیس کے الیکشن میں 52 میں 39 نشستوں پہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن اسکے جدید افکار اور نظریات کو دیکھ کر چند لوگ(سردار) اس سے متنفر ہوئے اور نتیجتاً پابندیوں کا شکار ہوئی.
مزید وہ لکھتے ہیں 70 کی دہائی تک قومی لیڈرشپ مختلف الجھاؤ کا شکار تھی کہ آیا وہ سوویت یونین جیسا انقلاب چاہتے ہیں یا کانگرسی(عدم تشدد) نظریہ, اگر وہ نوآبادیاتی تاریخ کا بغور جائزہ لیتے اور تشدد اور گوریلہ جنگ کا طریقہ شروع سے ہی اپناتے تو شائد یہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑتا جن مسائل سے قوم آج دوچار ہے.
امام حسین ع فرماتے ہیں
“ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اُتنی زیادہ قربانی دینی پڑے گی”.
سیاست, سیاسیات اور سیاسی نظام جیسی اصلطلاحات کو وہ اس قدر سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ عام قاری اور طالبعلم کو بھی سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے. سیاست کے بارے وہ کہتے ہیں کہ انسان نے پہلی بار گروہی مشکلات سے نمٹنے کیلئے جو مشترکہ تدابیر اختیار کیں, وہیں سے سیاست کی ابتدا ہوئی.
انسان جوں جوں ارتقا کی منزل کی طرف جاتا گیا تو وہ پیش آنے والے مختلف واقعات سے مختلف چیزیں سیکھتا گیا, گروہی شکل میں تبدیل ہونے کے بعد انسان اپنے گروہ کے مفادات, اسکے وسائل اور انکی حفاظت کے بارے سوچتا گیا بلآخر ان انتظامات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے گروہی زندگی کی طرف اس کا پہلا قدم تھا.
سیاست کی تعریف مختلف دانشور اس طرح بیان کرتے ہیں.
“سیاست فن ہے نہ کہ سائنس, ایک ایسا فن جس میں سماج کو یکجا رکھنے کیلئے اقدامات کیئے جاتے ہیں” (بسمارک)
توکل بلوچ کہتے ہیں
“اجتمائی اور قومی مقاصد کے حصول کیلئے قومی قوت کو مجتمع کر کے جدوجہد کرنا سیاست کہلاتا ہے”
اسی طرح وہ سیاسی نظام کے بارے لکھتے ہیں کہ
“نظم و ضبط اور اجتمائی مسائل کے حل کا ایسا نظام جو کثیر الجماعتی نظام میں اشتراکِ عمل اور یک جماعتی نظام میں باہمی ہم آہنگی کو پروان چڑھاتا ہے”.
آگے مزید وہ سیاسی عمل کو جانچنے کے دو اہم پیمانے بتاتے ہیں جس میں ایک رویتی اندازِ فکر
(traditional approach)
جب کہ دوسرا رویہ جاتی اندازِ فکر (behavioral approach) ہے.
روایتی اندازِ فکر یک موضوعی, قدآمد پسند, جامد اور غیر سائنسی طریقہ ہوتا ہے جس میں جدت اور بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی, یک موضوعی ہونے کی وجہ سے یہ کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا نہیں کرتا جس میں ایک سے زیادہ موضوعات پہ بحث مباحثہ ہو سکے یا سیکھنے کیلئے مختلف معاملات پہ تبادلہ خیال ہو سکے.
مزید اس طریقہ کار میں سیاسی نظام کی ترقی یا تنزلی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا جسکی وجہ سے نظام کافی حد تک جمود کا شکار ہوجاتا ہے.
جبکہ اس کے مقابل رویہ جاتی یا سُلوکی اندازِ فکر میں انسان کے رویے, جزبات, احساسات, خواہشات اور انکے محرکات کا جائزہ نفسیاتی طریقہ کار کے تحت لیا جاتا ہے. یہ طریقہ کار ایسا تجرباتی اور لچکدار ماحول مہیا کرتا ہے جس میں حالات کو مدِ نظر رکھ کر سمتوں کا تعین کیا جاتا ہے, اسکے ساتھ ساتھ سُلوکی اندازِ فکر میں واقعاتی مطالعہ اور براہِ راست مشاہدہ بھی کیا جاتا ہے جس سے کسی واقعے کو (case study) بنا کر اُسکے اثرات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جاتا ہے. سُلوکی نظام سائنسی بنیادوں پہ استوار ہوتا ہے جس میں ہمہ وقت تبدیلی اور بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور یہی نظام ہے جو کسی تنظیم کے جمود کو توڑنے کے ساتھ ساتھ اسکو متحرک کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے.
آگے وہ قوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قوم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گروہ کے ہیں. مختلف دانشوروں نے قوم کی تعریفیں مختلف کیں ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں.
“ایک قوم کیلئے ضروری ہے کہ اسکے پاس وسیع رقبہ اور فطری ذرائع موجود ہوں”
“قوم سے مراد افراد کا ایسا گروہ جنکا جغرافیہ اقتصادیات, رسم و رواج اور زبان مشترک ہوں”
وہ مزید لکھتے ہیں کہ زیادہ تر مفکرین نے قوم کی جو تعریف کی ہے ان میں سے اکثر قوموں کا تعلق ریاست سے ہے جنکا اپنا اقتصادی اور معاشی نظام ہوتا ہے لیکن چونکہ ایسی قومیں جو نوآبادیاتی دور سے گزر رہی ہیں اور جنکے پاس اپنی ریاست نہیں جس پہ وہ معاشی نظام مرتب کر سکیں,ان کیلئے اسکی تعریف وقت بوقت تبدیل ہوگی.
اسکے بعد وہ نیشنلزم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے بعد وہ ریاستیں جو صنعتی ترقی پہ کام کررہی تھیں انھوں نے پیداوار کے اضافے کیلئے ایشیائی اور افریقی ممالک پہ قبضے شروع کیئے تاکہ انکے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ اپنی صنعت کو خام مال مہیا کر سکیں,اس اثناء میں مظلوم اور محکوم قوموں کے اندر اپنے وطن اور قومی بقا کی خاطر ‘قوم دوستی’ کا جزبہ ابھرا اور وہیں سے نیشنلزم کا آغاز ہوا.
چونکہ کتاب کا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاسی تنظیم سازی کے بارے میں ہے اس لیئے ہم ان تمام تر اصطلاحات کو اپنی قوم کےساتھ جوڑنے کی کوشش کریں گے کہ بلوچ قومی تحریک میں سیاست اور سیاسی تنظیم سازی کتنی اہمیت کی حامل ہیں. اول الذکر میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ بلوچ قوم میں سیاست کا عروج اور سیاسی اداروں کی کارگردگی پچھلی دہائی کے اوائل میں نظر آتی ہے اگر یہی تنظیم سازی ستر سال پہلے شروع کی جاتی تو ہمارے حالات کچھ اور ہوتے. اسی سلسلے کی اور کڑی ‘پولیٹیکل پارٹی کی اہمیت’ کے بارے میں سوال کرتے ہیں کوئی بھی سیاسی پارٹی کیوں ضروری ہے ؟
سیاسی پارٹی کا کام قوم کے مختلف طبقاتِ فکر, مختلف قبائل اور زبانوں کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پہ یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ انکی شعوری اور فکری تربیت کرنا ہے. جہدِ مسلسل کیلئے قیادت کی فراہمی کو یقینی بنانا تاکہ لیڈرشپ کی کمی محسوس نہ ہو اور تنظیم میں موجود ہر شخص کو اس قابل بنانا کہ وہ آنے والے دور میں معاشرے کی راہنمائی کر سکے.
نوآبادکار کے اُن حربوں اور ہتھکنڈوں سے عوام کو باخبر رکھنا جن سے قوم میں مزید پھوٹ پڑ سکتی ہو, جن میں سے چند ایک درج زیل ہیں:
مذہب کے نام پہ تقسیم کرنا, سرداری نظام, اپنی تہذیب و ثقافت سے نفرت, منشیات اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہونا اور آخر میں پارلیمانی جماعتوں اور پالیمانی سیاست کے جال میں پھنسنا. ان تمام پراپیگنڈوں سےعوام کو باخبر رکھنا بھی سیاسی پارٹی کی ذمہ داری ہے.
آخر میں وہ سیاسی رویوں اور سیاسی موبالائزیشن کی اہمیت کے بارے لکھتے ہیں کہ جب تنظیم اور اسکا منشور واضح ہو جاتا ہے پھر یہ ضروری ہے کہ سیاسی ورکر کے رویے کیسے ہیں ان میں علمی, شائستگی اور اخلاقی حوالے سے کتنی پختگی ہے تاکہ آگے عوام تک اپنی بات پہنچا سکے اور ماس کو موبالائز کر سکے, اس حوالے سے عوامی رابطے, درست سمت میں عوام کی راہنمائی, جدت کی راہیں ہموار کرنا سمیت قوم کو ایک سمت میں اکٹھا کرنا شامل ہیں. سیاسی رویوں اور موبالائزیشن کے ان تمام مراحل کے بعد آہستہ آہستہ سیاسی ترقی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے کیونکہ بقول شاعر :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ یک دم نہیں ہوتا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔